جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

برائى و منكرات پر مشتمل شادى تقريب ميں كھانا پكانے كى معاونت كرنا اور تقريب سے دور رہنا

تاریخ اشاعت : 07-10-2009

مشاہدات : 8926

سوال

ہمارے ملك ميں شادى بياہ كى تقريبات موسقيى و گانے اور رقص و سرور پر مشتمل ہوتى ہيں، كيا اگر ميں شادى ميں تقريب ميں جا كر گانے كى مجلس سے دور بيٹھوں خاص كر اپنے اور سسرالى خاندان كى شادى تقريب ميں جاؤں تو كيا گنہگار ٹھرونگى، ميں وہاں نہ جانے اور كھانے وغيرہ مباح امور ميں شركت نہ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

برائى اور منكرات پر مشتمل تقريب مثلا دف كے علاوہ باقى آلات گانا بجانا جس ميں ڈھول باجا اور موسيقى شامل ہو، يا پھر مرد و عورت كے اختلاط پر مشتمل ہو، يا اس كے علاوہ كوئى اور برائى و منكرات پائى جائيں تو اس ميں شركت كرنا جائز نہيں، ليكن ايسا شخص جا سكتا ہے جو اس برائى كو روكنے كى استطاعت ركھتا ہو، اور اس كا ظن غالب ہو كہ اس كے روكنے سے برائى رك جائيگى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب اسے كسى ايسى تقريب اور وليمہ ميں دعوت دى جائے جس ميں معصيت و نافرمانى ہو مثلا شراب نوشى اور گانا بجانا پايا جائے اور اس كے ليے اس برائى كو روكنا اور ختم كرنا ممكن ہو تو اس كا اس تقريب ميں جانا اور اس برائى سے روكنا لازم ہے؛ كيونكہ اس طرح وہ دو فرض ادا كريگا ايك تو اپنے مسلمان بھائى كى دعوت كو قبول كريگا، اور دوسرا برائى كو ختم كريگا.

ليكن اگر وہ اس كو نہيں روك سكتا تو وہاں نہ جائے، اور اگر اسے اس تقريب ميں جا كر معصيت و برائى كا علم ہو تو وہ اس سے روكے، اور اگر روك نہيں سكتا تو وہاں سے واپس آجائے، امام شافعى نے بھى ايسا ہى كہا ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 7 / 214 ).

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" اگر شادى كى تقريبات برائى و معصيت مثلا مرد و عورت كے اختلاط اور گانے بجانے اور رقص وغيرہ سے خالى ہوں يا پھر اگر وہاں جائيں اور جا كر اس برائى كو روك ديں تو پھر وہاں اس خوشى ميں شامل ہونا جائز ہے، بلكہ اگر وہاں كوئى برائى ہو جس كو ختم كرنے پر آپ قادر ہوں تو وہاں آپ كا جانا واجب ہو جاتا ہے.

ليكن اگر تقريبات ميں ايسى برائى ہو جس كو آپ روك نہيں سكتے تو آپ كے ليے وہاں جانا حرام ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور ايسے لوگوں سے بالكل كنارہ كش رہيں جنہوں نے اپنے دين كو كھيل تماشا بنا ركھا ہے، اور دنيوى زندگى نے انہيں دھوكہ ميں ڈال ركھا ہے اور اس قرآن كے ذريعہ سے نصيحت بھى كرتے رہيں تا كہ كوئى شخص اپنے كردار كے سبب ( اس طرح ) پھنس نہ جائے كہ كوئى غير اللہ اس كا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشى الانعام ( 70 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور بعض لوگ ايسے بھى ہيں جو لغو باتوں كو مول ليتے ہيں كہ بے علمى كے ساتھ لوگوں كو اللہ كى راہ سے بہكائيں اور اسے ہنسى مذاق بنائيں يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليے رسوا كن عذاب ہے لقمان ( 6 ).

گانے بجانے اور موسيقى كى مذمت ميں وارد شدہ احاديث بہت ہيں " انتہى

ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلمۃ جمع و ترتيب محمد المسند ( 92 ).

دوم:

اگر آپ كا شادى ميں جانا اور كھانا پكانے ميں شريك ہونے وغيرہ ميں برائى سننے يا برائى كے اقرار يا معاونت نہيں ہوتى مثلا برائى والى جگہ دور ہو جہاں سے آپ كو آواز نہيں آتى، يا پھر برائى شروع ہونے سے قبل آپ وہاں سے واپس چلى جائيں تو پھر آپ كا وہاں ميں جانے ميں كوئى حرج نہيں، آپ كو چاہيے كہ آپ انہيں نصيحت كريں اور ان كے سامنے اس برائى كا حكم بيان كريں، اور اس ميں شركت كى حرمت بھى واضح كريں.

قرطبى رحمہ اللہ تعالى درج ذيل آيت كى تفسير كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيتوں كے ساتھ كفر كرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! حب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے النساء ( 140 ).

قولہ تعالى: تو تم ان كے ساتھ اس مجلس ميں نہ بيٹھو جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں .

يعنى كفر كے علاوہ اور باتيں كرنے لگيں:

يقينا تم انہى جيسے ہو . اس سے يہ دليل ملتى ہے كہ معصيت و نافرمانى كرنے والوں كى جانب سے جب معصيت ظاہر ہو تو ان سے عليحدہ رہنا واجب ہے؛ كيونكہ جو ان سے عليحدہ نہيں ہوتا تو وہ ان كے فعل پر راضى ہے، اور كفر پر راضى ہونا بھى كفر ہے.

اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

يقينا تم انہى جيسے ہو .

چنانچہ جو كوئى بھى معصيت و نافرمانى كى مجلس ميں بيٹھا اور انہيں اس برائى سے نہ روكا تو وہ ان كے ساتھ گناہ ميں برابر كا شريك ہے.

جب وہ معصيت و نافرمانى كى باتيں اور برائى پر عمل كرنے لگيں تو انہيں روكنا چاہيے، اور اگر وہ انہيں نہيں روك سكتا تو پھر اسے وہاں سے اٹھ جانا چاہيے تا كہ وہ اس آيت ميں شامل نہ ہو جائے " انتہى

اور شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اسى طرح ان مجالس اور تقريبات ميں شريك ہونا جن ميں فسق و فجور اور معصيت و نافرمانى ہوتى ہے بھى اسى ميں داخل ہو گا جن تقريبات ميں اللہ كے اوامر اور نواہى كى اہانت كى جاتى ہے، اور اللہ كى ان حدود كو پامال كيا جاتا ہے جو اس نے اپنے بندوں كے ليے قائم كى ہيں، اور اس نہى كى انتہاء يہ ہے كہ اس طرح كے لوگوں كے ساتھ اس وقت تك نہ بيٹھا جائے جب تك وہ كسى اور باتوں ميں مشغول نہ ہو جائيں . يعنى اللہ كى آيات كے ساتھ كفر اور مذاق كے علاوہ اور باتوں ميں مشغول ہو جائيں تو پھر بيٹھو، " يقينا تم انہى جيسے ہو " يعنى اگر مذكورہ حالت ميں تم ان كے ساتھ بيٹھو گے تو انہى جيسے ہو كيونكہ تم ان كے كفر اور مذاق پر راضى ہوئے ہو، اور معصيت پر راضى ہونا معصيت كا ارتكاب كرنے والے جيسا ہى ہے.

حاصل يہ ہوا كہ جو اللہ كى معصيت والى مجلس ميں حاضر ہو اس كے ليے استطاعت ہونے كى شكل ميں اس برائى سے روكنا متعين ہے، يا پھر اگر استطاعت نہيں تو وہاں سے اٹھ كر چلا جائے " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 217 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب