اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

باپ کے دباؤ میں گھر کی خریداری کے لئے سودی قرضہ لینا

تاریخ اشاعت : 04-01-2015

مشاہدات : 9592

سوال

سوال: میں ہر قسم کے سودی قرضے لینے سے توبہ کر چکا ہوں، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی میرے والدین نے دباؤ ڈال کر مطالبہ کیا کہ میں مکان کی خریداری کیلئے سودی قرض لے لوں؛ کیونکہ جس مکان میں ہم رہ رہے ہیں یہ ہماری ملکیت نہیں ہے، اور مالک مکان اپنا مکان واپس لینے پر اصرار کر رہا ہے ، اور مالی طور پر ہماری حالت ایسی نہیں ہے کہ ہم کوئی اور مکان خرید سکیں، تو میں نے ان سےاصرار کیا کہ حرام کا ارتکاب کرنے سے بہتر ہے کہ ہم کوئی اور مکان کرائے پر لے لیں، لیکن وہ مجھ پر سخت برہم ہوئے۔ مجھےبھی غصہ میں آگیا کہ میں مکان کی خریداری کیلئے سودی قرض لینے میں شریک نہیں بننا چاھتا تھا، میں قرض نہیں لینا چا ہتا تھا اور اس سے بری ہوں، لیکن قرض میرے اور ہماری فیملی کے ایک اور فرد کے نام پرہے، تو کیا اس وجہ سے مجھ پر کوئی گناہ ہے؟ حالانکہ میں اس وقت بھی سودی قرض کے خلاف تھا، اور آج بھی خلاف ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

سودی قرض لینا جائز نہیں ہے، چاہے بینک سے لیا جائے یا کہیں اور سے، اور چاہے یہ مکان کی خریداری کیلئے ہو یا کسی اور کام کیلئے؛ کیونکہ سود کی حرمت  کیلئے بہت ہی شدید  وعید  بتلائی گئی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ )
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور اگر تم مؤمن ہو تو باقیماندہ سود چھوڑ دو،   اگر نہیں چھوڑو گے تو اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کیلئے تیار ہوجاؤ، چنانچہ اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارا رأس المال  ہی ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو،  پھر تم پر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔[البقرة: 278- 279]

مسلم : (1598) نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے، اور اسکے گواہان پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا: (یہ سب [گناہ میں]برابر ہیں)"

ابن قدامہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"ہر ایسا قرض جس میں زیادتی کی شرط ہو تو وہ بغیر اختلاف کے حرام ہے، ابن منذر رحمہ اللہ  کہتے ہیں: سب کا اجماع ہے کہ اگر قرضہ دینے والا قرضہ لینے والے پر اضافی رقم یا تحفہ دینے کی شرط لگائے ، اور وہ اسی شرط پر قرضہ فراہم کرے تو  قرضہ پر زیادتی وصول کرنا  سود ہے"انتہی
"المغنی" (6/436)

چنانچہ مکان کی خریداری  اس عظیم اور سنگین جرم کے ارتکاب کیلئے کوئی قابل قبول عذر نہیں ہے، کیونکہ آپ  کرائے پر مکان لینے  پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں ، جیسے کہ آپ نے بھی یہ چیز بیان کی ہے۔

آپ نے سودی قرض لینے کے معاملے میں شرکت کر کے غلطی کی ہے، آپ کیلئے ضروری یہ تھا کہ آپ اپنے موقف ہر ڈٹے رہتے ، چاہے اسکی وجہ سے آپکے والدین اور آپکی پوری فیملی ناراض  ہی کیوں نہ ہو جاتی ؛ کیونکہ مخلوق کی اطاعت کرتے ہوئے خالق کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی۔آپ جزوی یا مکمل سودی قرض کیلئے دستخط کرنے کے بعد  اختلاف رائے رکھیں !! یہ کافی نہیں ہے۔

اس لئے آپ اور جس نے بھی سودی قرض لیا ہے،اللہ تعالی سے توبہ کریں، اور جو کچھ ہوا ہے اس پر نادم ہوں، اور دوبارہ ایسے سنگین جرم میں ملوّث  نہ ہونے کا پختہ عزم کریں، کیونکہ اس کے بارے  ایسی وعید آئی ہے جو کسی اور گناہ کے بارے میں نہیں آئی۔ اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے[آمین]

اور سودی قرض سے لئے ہوئے مکان  میں رہنے  پر کوئی حرج نہیں ہے،  دائمی فتوی کمیٹی  سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے سودی قرضے  سے گھر بنایا، تو کیا  اس گھر کو گرا دے؟ یا کیا کرے؟

تو فتوی کمیٹی کا جواب تھا:
"اگر ایسی بات ہے تو آپ نے جو قرضہ   سودی  انداز سے  لیا ہے یہ سود کی وجہ سے حرام  ہے ،  اور آپ اپنے اس عمل سے توبہ اور استغفار کریں، جو کچھ ہوا اس پر ندامت کا اظہار کریں، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ عزم کریں، جہاں تک گھر کی بات ہے تو   مت گرائیں، بلکہ آپ اس سے رہائش  یا کسی اور انداز سے  فائدہ اٹھائیں، اور اللہ تعالی سے امید ہے کہ اس کوتاہی پر  اللہ تعالی آپ کومعاف فرمائے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" ( 13 / 411 )

اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم سب کو معاف فرمائےاور  ہمارے  گناہ بخش دے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب