اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اسلامى بنكوں كے حصص كى خريد و فروخت كا حكم

تاریخ اشاعت : 03-07-2007

مشاہدات : 6959

سوال

اسلامى بنكوں كے حصص كى خريد و فروخت كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو ان بنكوں نے اپنا يہ نام ( اسلامى بنك ) لوگوں كو دھوكہ دينے كے ليے ركھا ہے اور وہ سودى لين دين، اور دوسرے حرام كام كرتے ہوں تو يہ اسلامى بنك نہيں، اور ان ميں شراكت اور ان كے ساتھ لين دين كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى ان كے حصص كى خريد و فروخت ميں حصہ لينا جائز ہے، كيونكہ يہ حرام فعل كے ارتكاب پر معاونت ہے.

اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المآئدۃ ( 2 ).

ليكن اگر يہ بنك حقيقتا واقعى طور پر اسلامى ہوں اور اپنے لين دين اور معاملات ميں كتاب و سنت كو سامنے ركھتے ہوں اور اس پر عمل پيرا ہوں اور حرام معاملات كا لين دين نہ كرتے ہوں تو ان ميں شراكت كرنے، اور ان بنكوں كے حصص كى خريدارى ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ ايسا كرنا چاہيے، كيونكہ اس ميں دوسرے سودى بنكوں كے مقابلہ ميں اس اسلامى بنك كا تعاون اور اسے تشجيع ہو گى، اس ليے كہ دوسرے بنكوں كے سودى لين دين، اور حرام معاملات عام ہونے كے نتيجہ ميں اسلامى بنكوں كو جو مقابلہ ہے اس ميں بھى اسلامى بنك كو تعاون ملےگا.

سوال نمبر ( 47651 ) كے جواب ميں اسلامى بنك كى صفات اور علامات بيان كى جا چكى ہيں.

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى درج ہے:

" اگر بنك كى بنياد ہى سود پر ہو اور وہ سودى لين دين كرتا ہو تو اس ميں حصہ ڈالنا اور شراكت كرنا جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں ظلم و زيادتى اور برائى ميں تعاون ہوتا ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور تم برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو "

انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 506 ).

اور ايك دوسرا فتوى كچھ اس طرح ہے:

سودى لين دين نہ كرنے والے بنكوں كے ساتھ شراكت كرنے جائز ہيں، اور ايسے لين دين كے نتيجہ ميں جو حرام نہ ہو بنك سے شراكت دار كو دو منافع حاصل ہو گا اس ميں كوئى حرج نہيں وہ حلال ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 507 ).

اور ايك دوسرے فتوى ميں درج ہے:

" جو بنك اور كمپنياں سودى لين دين نہيں كرتے ان ميں شراكت كرنا جائز ہے، اور جب شراكت دار اپنے سودى حصص سے چھٹكارا حاصل كرنا چاہے تو وہ اپنے حصص ماركيٹ كے ريٹ كے مطابق فروخت كردے اور پھر اس ميں سے صرف اپنا اصل مال اپنے پاس ركھے، اور باقى نيكى و بھلائى كے كاموں ميں صرف كر دے، اس كےليے اپنے حصص كے فوائد، يا سودى نفع ميں سے كچھ بھى اپنے پاس ركھنا جائز نہيں، ليكن اگر اس كى شراكت كسى ايسى كمپنى ميں ہو جو سودى لين دين نہيں كرتى تو اس كا منافع حلال ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 507 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات