الحمد للہ.
اول:
ارامكو كمپنى ميں سيونگ كے جس نظام پر عمل كيا جا رہا ہے وہ حرام اور صريحا سود ہے، كيونكہ اس میں قرض کے بدلے میں نفع دیا جاتا ہے، اس ليے كہ جس نے ايك لاكھ ريال ديا تا كہ وہ دس يا سات برس كے بعد يا اس كے علاوہ كسى اور مدت كے بعد واپس لے اور اس كے ساتھ اضافتا اسے ( مكافاۃ ) يعنى پنشن جس كى مقدار ايك لاكھ يا ستر ہزار ريال يا ايك ريال بھى ہو ملے گا، یہ صريحا سود ہے جس کے حرام ہونے کے بارے میں اجماع ہے۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
(کوئی بھی قرض جس ميں شرط ركھى گئى ہو كہ رقم واپس کرتے وقت زيادہ دے گا بغير كسى اختلاف كے حرام ہے، ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس پر سب کا اجماع ہے كہ جب قرض خواہ ، مقروض شخص پر زيادہ يا ہديہ دينے كى شرط لگا کر قرض دے، تو یہ سود ہے۔
اور ابى بن كعب اور ابن عباس اور ابن مسعود رضى اللہ عنہم سے مروى ہے كہ انہوں نے بھی منافع کے بدلے میں قرض دینے کو منع قرار دیا ہے)
"المغنى" ( 6 / 436 )
اگر كمپنى اس نظام كو ادخار ( جمع كرنا ) يا سرمايہ كارى ، اور مضاربت جيسے نام دے تو ان ناموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، كيونكہ ہر وہ سرمايہ كارى جس میں رأس المال کی ضمانت دى جائے وہ قرض شمار ہوتا ہے، اگرچہ لوگ اسے كوئى اور نام ديتے رہيں، چنانچہ اعتبار تو اشياء كى حقيقت كا ہوتا ہے نہ كہ ان كے نام كا۔
اور جائز سرمايہ كارى، يا بچت، يا ادخار کے کئی بنیادی ضوابط ہیں، جن ميں سے اہم يہ ہيں:
1 - يہ كہ مال آپ كا ہو، اور كام دوسرے فريق كا، اور اگر فریقِ ثانی اپنی محنت کے ساتھ مالی حصہ بھی ڈالنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔
2 - يہ كہ سرمايہ كارى كسى مباح كام ميں ہو اور آپ كے علم ميں ہو، كيونكہ غالب طور پر يہ كمپنياں سودى بنكوں ميں رقم ركھ كر سرمايہ كارى كرتى ہيں، يا پھر ايسے پراجيكٹ شروع كرتى ہيں جو مباح اور جائز نہيں ہوتے۔
3 - دونوں فريق منافع كى نسبت پر اتفاق كريں، نہ كہ رأس المال سے، مثلا: آپ كو منافع ميں سے پچاس فيصد يا دس فيصد ملے۔
4 - مضاربت پر كام كرنے والا شخص آپ كے ليے رأس المال كى ضمانت نہ دے، بلكہ جب (كوتاہى كے بغير) خسارہ ہو جائے تو خسارہ آپ كے مال ميں ہو گا اور وہ اپنی محنت كا نقصان برداشت کریگا۔
اور جب رأس المال كى ضمانت دی جائے تو معاملہ قرض بن جائے گا، جس كى منافع کے بغیر ادائيگى كرنا ضرورى ہے، اور اگر اس ميں زيادہ كى شرط ركھى جائے تو وہ سود ہے۔
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہم سے سود اور اس كے خطرات كو دور كرے اور ہميں حرام كى بجائے حلال كمائى كے ساتھ غنى كردے۔
حاصل يہ ہوا كہ ارامكو كمپنى ميں رأس المال كى ضمانت ہونے كى وجہ سے پايا جانے والا سيونگ سسٹم ( يعنى جمع كرانےاور پھر پنشن كى شكل ميں واپس لينے) كا نظام حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ منافع کی شرح فیصد رأس المال کیساتھ محدود ہے، تو يہ اس صورت ميں منافع كے ساتھ قرض بنے گا، اور اس ليے بھى كہ جس جگہ سرمايہ كارى كى جارہى ہے وہ مجہول ہے اس كا علم نہيں۔
دائمی فتوى كميٹى نے ملازم كو كمپنى سے ملنے والے مكافأہ ( پنشن ) كے باطل ہونے كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اسکی وجہ یہ بتلائی ہے كہ يہ مكافأہ ( پنشن ) صرف اسے ملتا ہے جو پيسے جمع كروائے، اور اگر يہ صرف مكافأہ ہى ہوتا تو سب ملازمين كو ديا جاتا۔
اور جيسا كہ سائل نے ذكر بھى كيا ہےکہ :
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كى سربراہى ميں دائمی فتوى كميٹى كے علماء نے جن ميں شيخ عبدالرزاق عفيفى، اور شيخ عبد اللہ بن غديان، اور شيخ عبد اللہ بن قعود جو كہ كبار علماء كرام ميں شامل ہوتے ہيں ،ان سے ارامكو كمپنى ميں ادخار يعنى سيونگ سسٹم كے متعلق سوال كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" ارامكو كمپنى ميں پائے جانے والے سيونگ سسٹم ميں شراكت حرام ہے، اس ليے كہ اس ميں رباالفضل اور ربا النسا ( ادھار اور زيادہ سود دونوں ) پايا جاتا ہے، اور يہ اس ليے كہ اس ميں سود كى نسبت محدود اور مقرر كردہ ہے جو كہ جمع كرائے گئے مال پر سعودى ملازم كےليے پانچ فيصد سے ليكر سو فيصد تك ہے، اور اسى طرح ( تنخواہ سے ) جمع كراونے والے ملازم كو مكافاۃ يعنى پنشن كى شكل ميں كچھ ديا جاتا ہے جبكہ جمع نہ كروانے والے كو كچھ نہيں ديا جاتا، جيسا كہ انہوں نے اپنے سيونگ سسٹم ميں بيان كيا ہے۔
ماخوذ از: "فتاوى اللجنۃ الدائمۃ "( 13 / 510 - 515 )
اور اسى طرح شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم نے بھى ارامكو كمپنى كے سيونگ سسٹم كے متعلق حرمت كا فتوى ديا ہے۔
دوم:
جب كسى مسئلہ كے شرعى حكم كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہو جائے تو فتوى لينے والے كو چاہيے كہ وہ فريقين كے دلائل كو ديكھتے ہوئے حق جاننے كے ليے جدوجہد اور كوشش كرے، اور دلائل كى بنا پر جو اسے راجح معلوم ہوتا ہو اس پر عمل كرے، يہ تو اس وقت ہے جب فتوى لينے والا طالب علم ہو اور ترجيح كى قدرت ركھتا ہو۔
ليكن اگر وہ شرعى علم ميں عدم تخصص كى بنا پر ترجيح نہيں دے سكتا تو اسے چاہيے كہ وہ بڑے اور قابلِ اعتماد عالم كى بات كو لے اور اس پر عمل كرے، لیکن عامی آدمی کو مختلف اقوال ميں سے مرضی سے اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اور ہمارے اس مسئلہ ميں واضح ہو گيا ہے كہ كبار علمائے كرام نے حرمت كا فتوى ديا ہے، اور مخالفین کے مقابلے میں يہى زيادہ علم ركھنے والے اور قابلِ اعتماد ہیں - اس مخالفت کو ہم باعث جرح نہیں بناتے- اس ليے آپ پر واجب اور ضرورى ہے كہ آپ مذکورہ بالا دلائل اور تفصیل كى بنا اس نظام سے دور رہيں۔
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے علمائے كرام كے اختلاف كے متعلق ايك مسلمان كے موقف كے بارے میں سوال كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" جب مسلمان كے پاس اتنا علم ہو كہ وہ علمائے كرام كے اقوال كے مابين دلائل كے ساتھ موازنہ اور مقارنہ كرسكے اور ان ميں ترجيح دے سكے اور زيادہ صحيح اور راجح كو معلوم كرسكے تو اس پر ايسا كرنا واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ اللہ تعالى نے متنازع امور كو كتاب و سنت پر پيش كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً
تو اگر تم كسى چيز ميں اختلاف كرو تو اسے اللہ اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتے ہوالنساء ( 59 )
لہذا اختلاف كردہ مسائل كو كتاب و سنت كى طرف لوٹايا جائے گا اور دليل كے ساتھ جو راجح ہو اسے لے ليا جائے گا، كيونكہ واجب اور ضرورى تو دليل كى اتباع ہے، اور علمائے كرام كے اقوال دلائل سمجھنے كے ليے صرف معاون ہوتے ہيں۔
اور اگر مسلمان شخص كے پاس اتنا علم نہيں كہ اس سے وہ علمائے كرام كے اقوال كے مابين ترجيح دے سكے، تو ايسے شخص كو چاہيے كہ وہ ان اہل علم سے سوال كرے جن كے علم اور دين پر اسے اعتماد ہو، اور وہ اسے جو فتوى ديں اس پر عمل كرے۔
چنانچہ فرمان بارى تعالى ہے:
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ
تو اگر تم علم نہيں ركھتے تو اہل علم سے دريافت كرو الانبياء ( 43 )
اور علمائے كرام نے بيان كيا ہے كہ عام آدمى كا مذہب وہی ہوتا ہے جو اسکے مفتى كا مذہب ہو۔
لہذا جب اہل علم كے اقوال ميں اختلاف ہو تو وہ سب سے زيادہ قابلِ اعتماد اور صاحبِ علم شخص كى بات مانے، يہ بالكل ايسے ہى ہے جيسے كسى شخص كو كوئى بيمارى لاحق ہو تو وہ احتیاط کرتے ہوئے سب سے زيادہ ماہر ، قابلِ اعتماد اور تجربہ کار ڈاكٹر كو تلاش كرتا اور اس كے پاس جاتا ہے كيونكہ وہ دوسروں كى بنسبت صحيح كے زيادہ قريب ہے، تو پھر دينى معاملات تو دنياوى امور سے زيادہ احتياط كے قابل ہيں۔
لیکن کسی مسلمان كے ليے یہ جائز نہيں ہے كہ وہ علمائے كرام كے اقوال ميں سے ایسا حق مخالف قول اختیار کرے جو اس كى خواہش كے موافق ہو ، اور نہ ہى اس كے ليے يہ جائز ہے كہ وہ ايسے علمائے كرام سے فتوى حاصل كرے جنہيں ديكھتا ہے كہ وہ مسائل اور فتوى ميں تساہل سے كام ليتے ہيں۔
بلكہ اسے چاہيے كہ وہ اپنے دين كے ليےاحتياط سے كام لے اور ايسے علمائے كرام سے مسائل دريافت كرے جو زيادہ سے زيادہ علم ركھنے والے ہوں، خوفِ الہی و خشیت ركھيں "۔ انتہی
ديكھيں: "اختلاف العلماء اسبابہ و موقفنا منہ "صفحہ ( 23 )، مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (22652) كے جواب كا مطالعہ كريں۔
پھر مسلمان شخص كے ليے ضرورى اور واجب ہے كہ وہ ايسے شخص سے فتوى لينے سے اجتناب کرے جو تساہل سے كام لينے ميں معروف ہو اور اپنے سے زيادہ علم ركھنے والے قابلِ اعتماد علمائے كرام كى مخالفت كرنے ميں مشہور و معروف ہو۔
اسی طرح مسلمان كو خواہشات نفس كى اتباع اور پيروى كرنے اور ان فتووں كو لينے اور ان پر عمل كرنے سے بچنا چاہيے جو اس کی خواہشات كے موافق ہوں اور جو اس كا دل چاہتا ہو اس كى موافقت كريں، كيونكہ مسلمان شخص سے يہ مطالبہ كيا گيا ہے كہ وہ خواہشات نفس كى مخالفت كرے۔
فرمان بارى تعالى ہے:
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى
اور جو اپنے رب كے سامنے كھڑا ہونے سے ڈر گيا اور اپنے نفس كو خواہشات سے روك ديا تو اس كا ٹھكانہ جنت ہے
واللہ اعلم .