اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

راجحى بنك ميں ملازمت كرنے كا حكم

تاریخ اشاعت : 23-10-2007

مشاہدات : 7139

سوال

اسلامى بنك الراجحى ميں ملازمت كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہر اس اسلامى بنك ميں ملازمت كرنى جائز ہے، جو معاملات اور لين دين ميں اسلامى قيود ضوابط پر عمل كرتے ہيں، ڈاكٹر محمد بن سعود العصيمى حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كونسے ايسے بنك ہيں جن ميں ملازمت كرنى جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس اسلامى بنك ميں ملازمت كرنى جائز ہے جو ان قواعد و ضوابط پر عمل كرتے ہوں جو شرعى كميٹى نے مقرر كيے ہيں، مثلا الرجحى اور بنك البلاد كى شرعى كميٹى.

اور ملازم كے ليے اس بنك ميں ملازمت كرنى جائز ہے حتى كہ اگر كام اس كى رائے ميں صحيح كے مخالف بھى ہو، اور وہ كام بنك كى شرعى كميٹى كے ہاں جائز ہو.

اور ان بنكوں ميں بھى ملازمت كرنى جائز ہے جو اسلامى بنك ميں تحويل كرتے ہيں مثلا اہلى اور الجزيرہ ليكن اس ميں ملازمت كى ايك شرط ہے كہ وہ بنك شرعى كميٹى كے قواعد و ضوابط پر عمل كرتا ہو، ليكن سودى بنك ميں ملازمت كرنا جائز نہيں ہے، چاہے كام مباح حصہ ميں ہى كيوں نہ ہو.

واللہ تعالى اعلم.

اور ان سے يہ سوال بھى كيا گيا:

مجھے الراجحى بنك ميں ٹيكنكلى معلومات كے حصہ ميں دفترى اور ٹيكنكل كے عہدہ پر ملازمت كى پيشكش ہوئى ہے، كيا آپ اس منصب اور عہدہ پر راجحى بنك ميں ملازمت ميں كوئى شرعى شبہ محسوس كرتے ہيں ؟

شيخ كا جواب تھا:

" اس ميں كوئى حرج نہيں، آپ كو شرعى كميٹى كى قرارات كا مطالعہ كرنا چاہيے، تا كہ آپ خود بھى مطمئن ہوں، اور آپ كے ارد گرد والے بھى، اور آپ ان قرارات اور فيصلوں پر عمل كر سكيں، اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے " انتہى.

ماخوذ از: شيخ ويب سائٹ الربح الحلال.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب