اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا كام نماز كى تاخير كے مباح عذر ميں شامل ہوتا ہے ؟

سوال

ميں ملازمت كرتا ہوں، اور نماز فجر اور ظہر كى نماز ادا كرنے كے ليے وقت نہيں ملتا، كيا ميرے ليے كام كے بعد نمازيں ادا كرنى جائز ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كسى بھى مسلمان شخص كے ليے بھى بغير كسى عذر كے نماز ميں وقت سے تاخير كرنى حلال نہيں، اور وہ شرعى عذر جو نماز كا وقت نكل جانے كے بعد نماز ادا كرنا مباح كرتے ہيں ان ميں نيند، بھول جانا، شامل ہيں، انسان كے ليے دنياوى كام اور ملازمت نماز ترك كرنے يا اس ميں وقت سے تاخير كرنے كے ليے شرعى سبب نہيں.

بلكہ سچے مسلمانوں كى صفات ميں شامل ہے كہ تجارت اور خريد و فروخت انہيں اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے غافل نہيں كرتے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

ايسے لوگ جنہيں تجارت اور خريد و فروخت اللہ كے ذكر سے اور نماز قائم كرنے اور زكاۃ ادا كرنے سے غافل نہيں كرتى، وہ اس دن سے ڈرتے ہيں جس دن بہت سے دل اور آنكھيں الٹ پلٹ ہو جائينگى، اس ارادے سے كہ اللہ تعالى انہيں ان كے اعمال كا بہترين بدلہ عطا فرمائے، بلكہ اپنے فضل سے كچھ اور زيادہ عطا فرمائے، اللہ تعالى جسے چاہے بغير حساب كے روزياں عطا فرماتا ہے النور ( 37 - 38 ).

شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ مرد ہيں چاہے تجارت كريں اور خريد و فروخت ميں مشغول ہوں كيونكہ اس ميں كوئى ممانعت نہيں، ليكن انہيں يہ تجارت غافل نہيں كرتى كہ وہ اسے " اللہ تعالى كے ذكر اور نماز قائم كرنے اور زكاۃ ادا كرنے " پر ترجيح ديں، بلكہ انہوں نے اپنا مقصد اور غرض و غايت اور مراد اللہ تعالى كى اطاعت اور اس كى عبادت بنايا ہوا ہے، اس ليے جو چيز بھى اللہ تعالى كى اطاعت اور ان كے مابين حائل ہو وہ اسے دور پھينك ديتے اور ترك كر ديتے ہيں.

اور جب اكثر نفوس اور لوگوں پر دنيا ترك كرنى شديد سخت تھى اور مختلف قسم كى تجارت اور كمائى كرنا محبوب ٹھرا، اور غالب طور پر اسے ترك كرنا مشكل اور مشقت كا باعث بنتا، اور اس پر اللہ تعالى كے حقوق كو مقدم كرنا انتہائى مشكل تھا تو اللہ تعالى نے ـ بطور ترغيب اور ترہيب ـ اس كى طرف لے جانے والى اشياء كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا:

وہ اس دن سے ڈرتے ہيں جس دن بہت سے دل اور آنكھيں الٹ پلٹ ہو جائينگى .

اس دن كى ہولناكى كى شدت اور اس سے دلوں اور بدنوں كا اس سے دہل جانا، چنانچہ وہ اسى ليے اس دن سے ڈرے تو اللہ تعالى نے ان كے ليے عمل ( يعنى آخرت كے ليے اعمال صالحہ ) كرنے آسان كر ديے، اور اس كے راستے ميں آڑے آنے والى اشياء كو ترك كرنے ميں آسانى پيدا كردى.

ماخوذ از: تفسير سعدى.

اللہ تعالى نے بغير كسى عذر كے وقت سے ليٹ كر كے نماز ادا كرنے والے كو وعيد سناتے ہوئے فرمايا ہے:

اور پھر ان كے بعد ايسے ناخلف پيدا ہوئے جنہوں نے نماز ضائع كردى اور نفسانى خواہشات كے پيچھے پڑ گئے، چنانچہ وہ عنقريب جہنم ميں ڈاليں جائينگے، مگر وہ جس نے توبہ كر لى اور ايمان لے آيا اور اعمال صالحہ كيے يہى لوگ جنت ميں داخل ہونگے، اور ان پر كچھ بھى ظلم نہيں كيا جائيگا مريم ( 59 ).

الغي: خسارہ، يا جہنم ميں ايك وادى كا نام ہے.

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

ان نمازيوں كے ليے ہلاكت ہے، جو اپنى نمازوں ميں سستى كرتے ہيں الماعون ( 4 - 5 ).

ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس كہتے ہيں:

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے كہا گيا كہ اللہ تعالى نے قرآن مجيد ميں نماز كا ذكر كثرت سے كرتے ہوئے فرمايا ہے:

وہ لوگ جو نماز كى ادائيگى ميں سستى اور كاہلى سے كام ليتے ہيں.

اور فرمايا:

وہ لوگ جو اپنى نمازوں كى پابندى كرتے ہيں.

اور فرمايا:

وہ اپنى نمازوں كى حفاظت كرتے ہيں .

تو ابن مسعود رضى اللہ تعالى نے كہا: نمازوں كے وقت كى پابندى كرتے ہوئے نماز وقت ميں ادا كرتے ہيں.

لوگ كہنے لگے: ہم تو يہ سمجھتے تھے كہ يہ نماز ترك كرنا ہے، تو ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ فرمانے لگے:

يہ تو كفر ہے ...

اور اوزاعى رحمہ اللہ تعالى نے ابراہيم بن يزيد رحمہ اللہ تعالى سے بيان كيا ہے كہ عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى نے يہ آيت تلاوت كى:

اور پھر ان كے بعد ايسے ناخلف پيدا ہوئے جنہوں نے ضائع كردى اور نفسانى خواہشات كے پيچھے پڑ گئے، چنانچہ وہ عنقريب جہنم ميں ڈاليں جائينگے .

پھر كہنے لگے: ضائع كرنے سے مراد نماز كا ترك كرنا نہيں، بلكہ انہوں نے نماز بروقت ادا نہ كر كے نماز ضائع كر دى.

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 3 / 128 - 129 ).

چنانچہ آپ كے ليے كام كاج كے عذر كى بنا پر نماز ميں وقت سے تاخير كر كے ادا كرنى حلال نہيں، اس ليے اگر آپ كے ليے كام كاج كى بنا پر بروقت نماز كى ادائيگى ممكن نہيں تو آپ يہ كام اور ملازمت ترك كر ديں، اور اس كے علاوہ كوئى اور كام تلاش كريں جو آپ كى نمازوں كے ضائع ہونے كا سبب نہ بنے.

اور پھر كسى عقلمند مسلمان كے لائق نہيں كہ وہ اپنے آپ كو اللہ تبارك و تعالى كى وعيد كے سامنے پيش كرتے ہوئے اللہ تعالى كے عذاب سے دوچار ہو اور نہ ہى اس كے شايان شان يہ ہے كہ اپنا دين اس فانى دنيا كے بدلے فروخت كرتا پھرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب