اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نماز میں رفع الیدین کرنا

تاریخ اشاعت : 10-10-2015

مشاہدات : 52624

سوال

میرا سوال رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین کی متواتر صحیح حدیث کے بارے میں ہے، یہ حدیث صحیح ہے، جو کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، اور ابو داود میں موجود ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ احناف اس حدیث کو قبول نہیں کرتے؟ اس حدیث کو مسترد کرنے کی کیا وجہ ہے؟
اسی موضوع سے متعلق ایک اور سوال ہے کہ کیا یہ حدیث اس وقت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو نہیں پہنچی تھی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سائل نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کے الفاظ بخاری: (735) اور مسلم: (390)  میں اس طرح ہیں: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو  کندھوں تک اٹھاتے، جس وقت رکوع کرتے اس وقت بھی، اور جب  رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت بھی کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے [رفع الیدین کرتے]۔

اس حدیث پر جمہور علمائے کرام نے عمل کیا ہے، چنانچہ انہوں نے  حدیث میں مذکور  ان جگہوں پر نمازی کیلئے رفع الیدین کرنے کو مستحب کہا ہے۔

بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے متعلق ایک الگ سے کتاب بھی تصنیف کی ہے، اور اس کا نام رکھا ہے: "جزء رفع الیدین" انہوں نے اس میں ان دونوں جگہوں پر رفع الیدین کرنے کو ثابت کیا ہے، اور اس موقف کی مخالفت کرنے والوں کی سختی سے تردید کی ہے۔

چنانچہ  اسی جزء رفع الیدین میں نقل کیا ہے کہ : حسن [بصری] رحمہ اللہ کہتے ہیں:  "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام  نماز میں رکوع جاتے  ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کیا کرتے تھے"
امام بخاری اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "حسن بصری نے کسی بھی صحابی کو مستثنی نہیں کیا، اور نہ ہی کسی صحابی سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے رفع الیدین نہیں کیا ہو" انتہی
دیکھیں: "المجموع" از نووی: (3/399-406)

جبکہ رفع الیدین کی احادیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو پہنچی تھی یا نہیں تو اس بارے میں ہمیں علم نہیں ہے، تاہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکاروں کا ضرور پہنچی ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے ان احادیث پر عمل نہیں کیا،  اس کی وجہ یہ ہے کہ  رفع الیدین والی احادیث  دیگر  ان احادیث سے معارض  ہیں جن میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ  رفع الیدین   چھوڑنے کا ذکر ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:

- ابو داود (479) نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو  کانوں تک  اٹھاتے، اور پھر ایسا نہ کرتےتھے ۔

- ابو داود (748) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں : "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟" تو انہوں نے نماز پڑھائی،  اور انہوں نے صرف ایک بار رفع الیدین کیا۔
مزید کیلئے دیکھیں: "نصب  الرایہ "از زیلعی: (1/393-407)

لیکن ان احادیث کو  محدثین  اور حفاظ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔

چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کو سفیان بن عیینہ ، شافعی، امام بخاری کے استاد حمیدی،  احمد بن حنبل، یحیی بن معین، دارمی، اور امام بخاری سمیت دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ جمیعا نے  اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

جبکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو عبد اللہ بن مبارک، احمد بن حنبل، بخاری، بیہقی، اور دارقطنی سمیت  متعدد علمائے کرام رحمہم اللہ جمیعا نے  ضعیف قرار دیا ہے۔

اسی طرح کچھ صحابہ کرام سے ترک رفع الیدین سے متعلق  مروی  آثار بھی ضعیف  ہیں، جیسے کہ پہلے امام بخاری رحمہ اللہ سے  یہ قول گزر چکا ہے کہ: "نبی صلی  اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہوتا  کہ انہوں نے رفع الیدین  نہیں کیا" انتہی
دیکھیں:  "تلخیص الحبیر" از حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (1/221-223)

چنانچہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ ترکِ رفع الیدین کے بارے میں تمام احادیث اور  آثار  ضعیف ہیں ، تو وہی احادیث رہ جاتی ہیں کہ  جن میں رفع الیدین  کرنا ثابت ہے، اور ان کی مخالفت میں کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔

اس لیے مؤمن کا شعار یہی ہونا چاہیے کہ  احادیث میں ذکر کردہ  جگہوں پر رفع الیدین کرے، اور  بھر پور کوشش کرے کہ اپنی نماز ، نبوی نماز کی طرح بنائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے) بخاری: (631)

یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد علی بن مدینی  رحمہ اللہ کہتے تھے:
"مسلمانوں کا یہ حق بنتا ہے کہ رکوع میں جاتے ہوئے، اور رکوع سے اٹھتے ہوئے  رفع الیدین کریں"

اور انہی کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں: "علی بن مدینی اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے"

چنانچہ  سنت ثابت اور واضح ہونے کے  بعد کسی عالم کی تقلید کرتے ہوئے  سنت ترک کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام علمائے کرام کا  اس بات پر اجماع ہے کہ   جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ادراک ہو جائےتو  پھر اس کے لئے اس سنت کو کسی  غیر کے قول  کی وجہ سے چھوڑ دینا جائز نہیں ہے" انتہی
"مدارج السالکین": (2/335)

"اور اگر کوئی شخص  ابو حنیفہ، مالک، شافعی، یا احمد بن حنبل رحمہم اللہ جمیعا کا پیروکار ہو ، اور کچھ مسائل میں اسے یہ محسوس ہو کہ  دوسروں کا موقف زیادہ قوی ہے، اور اسی کو اپنا لے ، تو یہ اچھا اقدام ہے، اس  وجہ سے اس کی دینداری میں بالاتفاق کوئی کمی واقع نہیں ہوگی،  بلکہ ایسا کرنا واجب ، اور اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پسندیدہ بھی ہے" انتہی
یہ بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے "مجموع الفتاوی"(22/247) میں کہی ہے۔

اور ایسے علمائے کرام کیلئے ہم عذر تلاش کرینگے جنہوں نے رفع الیدین نہ کرنے کا  موقف اپنایا، کیونکہ انہوں نے اپنا اجتہاد کیا، اس لیے انہیں اپنے اجتہاد کی وجہ سے  اجر ملے گا، اور حق تلاش کرنے پر ثواب بھی ہوگا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی جب فیصلہ کرتے ہوئے پوری محنت و کوشش کرے، اور درست فیصلہ صادر  کر دے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اور اگر فیصلہ کرتے ہوئے خوب محنت و کوشش کے با وجود غلطی ہو جائے تو اسے ایک اجر ملے گا) بخاری: (7352) مسلم: (1716)
مزید کیلئے دیکھیں: "رفع الملام عن الأئمة الأعلام " از ابن تیمیہ رحمہ اللہ

تنبیہ:

ایک چوتھی جگہ بھی ہے جہاں نماز  میں رفع الیدین کرنا مستحب ہے،  اور وہ ہے دوسری رکعت کے بعد تشہد سے  تیسری رکعت کیلئے اٹھتے وقترفع الیدین کرنا، اس بارے میں مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (3667) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اللہ تعالی ہم سب کو تلاشِ حق، اور اتباعِ حق کی توفیق دے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد