الحمد للہ.
نماز كے وقت كى ابتدا اور انتہاء معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9940 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور آپ نے نماز ميں تاخير اور وقت نكل جانے ميں جو فرق دريافت كيا ہے اس كا جواب درج ذيل ہے:
نماز كا وقت نكل جانا:
وہ يہ ہے كہ نماز كا وقت ختم ہو جائے اور نماز ادا نہ كى جائے، يہ كبيرہ گناہ ہے، ليكن اگر كوئى شرعى عذر ہو تو كوئى گناہ نہيں، مثلا نيند يا بھول جانا.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:
" فقھاء كرام متفق ہيں كہ نماز ميں بغير شرعى عذر اتنى تاخير كرنا كہ نماز كا مقررہ وقت نكل جائے تو ايسا كرنا حرام ہيں "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 10 / 8 ).
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جو انسان نماز ميں عمدا تاخير كرے حتى كہ نماز كا وقت ہى نكل جائے، يا پھر وہ نماز كا وقت جانے كے بعد گھڑى كا الارم لگاتا ہے حتى كہ وہ وقت ميں نہ اٹھ سكے تو سب علماء كرام كے ہاں يہ عمدا نماز كا تارك ہے، اور اس نے عظيم برائى كا ارتكاب كيا ہے، ليكن كيا يہ شخص كافر ہو گا يا نہيں ؟
اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:
اگر تو وہ نماز كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا تو جمہور علماء كرام اسے اس بنا پر كفر اكبر كا مرتكب نہيں سمجھتے.
اور اكثر اہل علم كى ايك جماعت اسے كفر اكبر كا مرتكب قرار ديتى ہے كہ وہ اس طرح دائرہ اسلام سے ہى خارج ہو جائيگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور شرك و كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 82 ).
اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
اسے امام احمد اور اصحاب سنن اربعہ نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے، اور اس كے علاوہ بھى كئى ايك دلائل ہيں.
اور صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين سے بھى يہى منقول ہے:
كيونكہ جليل القدر تابعى عبد اللہ بن شقيق عقيلى رحمہ اللہ كا بيان ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نماز كے ترك كرنے كے علاوہ كسى بھى چيز كو ترك كرنا كفر نہيں سمجھتے تھے " اھـ
نماز ميں تاخير كرنے كا دو معنوں پر اطلاق ہوتا ہے:
پہلا:
نماز ميں اتنى تاخير كرنا كہ نماز كا وقت ہى نكل جائے، يہ نماز كا وقت نكل جانے كے معنى آتا ہے، اس كا معنى اور حكم بيان كيا جا چكا ہے.
دوسرا:
نماز كو وقت كے آخر تك مؤخر كرنا.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 10 / 6 ).
درج ذيل حديث كى بنا پر نماز كے آخرى وقت ميں نماز كى ادائيگى جائز ہے:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك سائل آيا اس نے نماز كے اوقات دريافت كيے... چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے نماز كا اول اور آخرى وقت بتايا اور فرمانے لگے:
" ان دونوں كے مابين نماز كا وقت ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 614 ).
ليكن اگر نماز ميں تاخير كرنے سے نماز باجماعت كى ادائيگى ضائع ہوتى ہو، اور وہ آخرى وقت ميں اكيلا نماز ادا كرے، تو ايسا كرنا حرام ہے كيونكہ اس نے نماز باجماعت كى ادائيگى ترك كى ہے، ليكن اگر وہ نماز باجماعت ادا كرنے ميں شرعا معذور ہو تو پھر نہيں.
افضل يہى ہے كہ نماز اول وقت ميں ادا كى جائے، صرف عشاء كى نماز دير سے ادا كرنا، اور گرمى كى شدت كے وقت نماز ظہر ٹھنڈى كر كے ادا كرنا افضل ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اكمل يہى ہے كہ ( نماز ) شرعى طور پر مقرر كردہ وقت ميں ادا كى جائے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ تعالى كو سب سے زيادہ محبوب عمل دريافت كرنے والے كو فرمايا:
" بروقت نماز ادا كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 527 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 85 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ( اول وقت ميں نماز ادا كرنا ) نہيں فرمايا؛ كيونكہ كچھ نمازيں مقدم كرنى اور كچھ ميں تاخير كرنى مسنون ہے، مثلا نماز عشاء رات كے ايك تہائى حصہ تك تاخير كرنى مسنون ہے، اس ليے اگر عورت گھر ميں ہو اور وہ يہ سوال كرے:
كيا ميرے ليے عشاء كى اذان ہوتے ہى نماز ادا كرنى افضل ہے، يا كہ رات كے ايك تہائى حصہ تك تاخير كرنا ؟
ہم كہينگے: تيرے ليے رات كے ايك تہائى حصہ تك نماز ميں تاخير كرنى افضل ہے؛ كيونكہ ايك رات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عشاء ميں اتنى تاخير كى كہ صحابہ كرام كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم عورتيں اور بچے سو گئے ہيں چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نكلے اور آكر صحابہ كو نماز پڑھائى اور فرمانے لگے:
" اگر ميں اپنى امت پر مشقت نہ سمجھوں تو يہ اس نماز كا وقت ہے "
اس ليے اگر عورت اپنے گھر ميں ہو تو اس كے ليے نماز مؤخر كرنى افضل ہے.
اور اسى طرح فرض كريں اگر مرد محصور ہوں، يعنى كچھ افراد سفر ميں ہوں اور وہ يہ كہيں:
كيا ہم عشاء كى نماز تاخير سے ادا كريں، يا كہ پہلے ادا كر ليں ؟
تو ہم كہينگےكہ آپ كا تاخير كرنا افضل ہے.
اور اسى طرح اگر ايك گروہ سير و تفريح كے ليے نكلے اور عشاء كى نماز كا وقت ہو جائے تو ان كے ليے عشاء كى نماز اول وقت ميں ادا كرنا افضل ہو گى يا تاخير كر كے ادا كرنا ؟
ہم كہينگے: اگر تاخير كرنے ميں مشقت نہ ہو تو ان كے ليے نماز عشاء تاخير سے ادا كرنا افضل ہے.
اور باقى سب نمازيں اول وقت ميں ادا كرنى افضل ہيں، ليكن اگر كوئى سبب ہو تو تاخير ہو سكتى ہے، چنانچہ فجر كى نماز مقدم كى جائيگى، اور ظہر كى نماز مقدم كى جائيگى، اور عصر كى نماز مقدم كى جائيگى، اور عصر كى نماز مقدم كى جائيگى، ليكن اگر كوئى سبب ہو تو پھر نہيں.
اسباب يہ ہيں: اگر گرمى شديد ہو تو پھر ظہر كى نماز ٹھنڈے وقت تك مؤخر ہو سكتى ہے، يعنى نماز عصر كے قريب تك؛ كيونكہ جب عصر كا وقت قريب ہوتا ہے تو گرمى كى شدت ميں كمى آ جاتى ہے، شديد گرمى ميں نماز ظہر ٹھنڈى كر كے ادا كرنا افضل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب گرمى شديد ہو تو نماز كو ٹھنڈا كر كے ادا كرو، كيونكہ گرمى كى شدت جہنم كے شعلوں سے ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 537 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 615 ).
ايك بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں تھے تو بلال رضى اللہ تعالى عنہ اذان كے ليے اٹھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
ٹھنڈ ہونے دو، پھر كچھ دير بعد اذان كہنے اٹھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ٹھنڈ ہونے دو، پھر كچھ دير بعد اذان كہنے اٹھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اجازت دے دى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 629 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 616 ).
اسباب ميں يہ بھى شامل ہے كہ: جماعت آخرى وقت ہوتى ہو، اور اول وقت ميں جماعت نہ ملے، تو يہاں تاخير كرنى افضل ہو گى، جس طرح كہ سكى شخص كو صحرا ميں نماز كا وقت ہو جائے، اور اسے علم ہو كہ وہ نماز آخرى وقت ميں جماعت پا سكتا ہے، تو كيا اس كے ليے اسى وقت نماز ادا كرنى افضل ہو گى يا كہ وہ نماز باجماعت ادا كرنے كے ليے نماز ميں تاخير كر لے ؟
ہم كہينگے: افضل يہ ہے كہ آپ نماز باجماعت ادا كرنے كے ليے تاخير كر ليں، بلكہ ہم يہاں جماعت كے حصول كے ليے نماز ميں تاخير كرنا واجب كہينگے. اھـ
ديكھيں: فتاوى اركان الاسلام صفحہ ( 287 ).
واللہ اعلم .