اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ايك مسافر نے جمع تقديم كى اور دوسرى نماز كا وقت شروع ہونے سے قبل اپنے شہر واپس آ گيا

تاریخ اشاعت : 14-07-2008

مشاہدات : 11145

سوال

ميں جب سفر ميں ہوتا ہوں اور ظہر عصر يا مغرب عشاء جمع تقديم كر كے ادا كرتا ہوں، ليكن بعض اوقات اچانك ايسا ہو جاتا ہے كہ دوسرى نماز كى اذان كے وقت سے قبل ہى اپنے شہر واپس پلٹ آتا ہوں، يا اذان كے كچھ دير بعد، تو كيا مجھے دوبارہ فرض ادا كرنا ہونگے، يا كہ دونوں حالتوں ميں سفر كے اندر جمع تقديم اور نماز قصر كرنے سے اس كى ادائيگى ساقط ہو جائيگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سفر كى رخصت ميں ظہر و عصر، اور مغرب و عشاء كے مابين جمع تقديم يا جمع تاخير شامل ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے سب سفروں ميں ہميشہ نماز جمع نہيں كى، بلكہ بعض اوقات جمع فرماتے، اور بعض اوقات جمع نہيں كرتے تھے بلكہ ہر نماز اس كے وقت ميں ادا كرتے.

اسى ليے علماء كرام كا كہنا ہے:

مسافر كے ليے افضل يہ ہے كہ وہ نمازيں جمع نہ كرے، ليكن ضرورت كے وقت يعنى جب ہر نماز وقت ميں ادا كرنے ميں مشقت ہو تو وہ جمع كرسكتا ہے، اگرچہ جمع كرنے كى رخصت ہر مسافر كے ثابت ہے.

ديكھيں: المغنى ( 3 / 131 ) الشرح الممتع ( 4 / 550 - 553 ).

اور جب سفر ہو تو جمع كرنے كى رخصت پر عمل كرنا جائز ہے، چاہے اسے علم بھى ہو كہ وہ دوسرى نماز كا وقت نكلنے يا وقت شروع ہونے سے قبل اپنے شہر پہنچ جائيگا، كيونكہ دلائل سے ثابت ہے كہ مسافر كے ليے نماز جمع كرنا جائز ہے، چنانچہ جب تك وہ مسافر ہے اسے نماز جمع كرنے كا حق ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے " المجموع "

ميں علماء كرام كا اختلاف ذكر كرتے ہوئے دو قول ذكر كيے ہيں كہ جب مسافر جمع تقديم يا جمع تاخير كرے اور پھر وہ اقامت اختيار كرلے تو كيا اس كى جمع باطل ہو جائيگى، اور دوسرى نماز وقت كے دوران اس پر لوٹانا واجب ہو گى يا نہيں ؟

پھر امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

دونوں ميں صحيح قول يہ ہے كہ جمع باطل نہيں ہوتى، جيسا كہ اگر كسى نے نماز قصر كى اور پھر مقيم ہو گيا. اھـ كچھ كمى و بيشى كے ساتھ

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 180 ).

موفق ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:

" اور اگر وہ پہلى نماز كے وقت ميں نماز ادا كر لے اور پھر نماز سے فراغت كے بعد دوسرى نماز كا وقت شروع ہونے سے قبل عذر زائل ہو جائے تو اس كى نماز ہو جائيگى، اور دوسرى نماز اس كے وقت ميں ادا كرنى لازم نہيں ہوگى؛ كيونكہ اس كے ذمہ جو نماز تھى اس نے صحيح ادا كى ہے، اور وہ برى الذمہ ہو چكا ہے چنانچہ اس كے بعد دوبارہ اس كے ذمہ نہيں ہو گى.

اور اس ليے كہ اس نے عذر كى حالت ميں فرض ادا كيے ہيں، چنانچہ عذر زائل ہونے كے بعد باطل نہيں ہونگے، جيسے كہ تيمم كرنے والا شخص جب نماز سے فارغ ہونے كے بعد پانى حاصل كر لے " اھـ

ديكھيں: اللمغنى ابن قدامہ ( 3 / 140 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك مسافر نے ظہر اورعصر كى نماز جمع تقديم كر كے ادا كى اور اسے علم تھا كہ وہ اپنى اقامت والى جگہ عصر كى نماز سے قبل پہنچ جائيگا كيا اس كا يہ عمل جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

جى ہاں يہ جائز ہے، ليكن اگر اسے علم تھا يا اس كا ظن غالب يہ تھا كہ وہ نماز عصر سے قبل پہنچ جائيگا، تو اس كے ليے افضل ہے كہ وہ جمع نہ كرے كيونكہ اس وقت جمع كرنے كى كوئى حاجت و ضرورت نہيں. اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 422 ).

مستقل فتوى كميٹى سے بنفسہ يہى مسئلہ دريافت كيا گيا تو اس كا جواب تھا:

" ..... اور اگر آپ نے اپنے سفر ميں عشاء كى نماز مغرب كے ساتھ جمع اور قصر كر كے ادا كى تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اگرچہ آپ عشاء كے وقت پہنچ جائيں " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ لبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 152 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب