جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اگر گرہن ظاہرا طبيعى ہوتا ہے تو پھر ہم كيوں گھبرائيں اور نماز ادا كريں ؟

سوال

يہ معروف ہو چكا ہے كہ گرہن ظاہرى چيز اور وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے ( اس كا وقت بھى معلوم كرنا ممكن ہے ) يہ اس وقت ہوتا ہے جب چاند سورج اور زمين كے درميان آ جائے.
تو پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس وقت نماز كيوں ادا كرتے تھے؟ جبكہ يہ كوئى اذيت اور تكليف كا باعث نہيں بنتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس اللہ وحدہ كى تعريف ہے:

اما بعد:

جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں سورج گرہن ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منادى كرنے والے كو " الصلاۃ جامعۃ " كا اعلان كرنے كا حكم ديا، اور لوگوں كو نماز پڑھائى اور پھر انہيں خطبہ ديا، اور ان كے ليے گرہن لگنے كى حكمت بيان كى، اور گرہن كے متعلق جاہليت كے عقائد كو باطل قرار ديا، اور صحابہ كے ليے بيان كيا كہ انہيں اس وقت نماز اور صدقہ و خيرات اور دعاء كرنى چاہيے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" يقينا سورج اور چاند اللہ تعالى كى نشانيوں ميں سے دو نشانياں ہيں يہ كسى كى موت اور كسى كى زندگى سے گرہن زدہ نہيں ہوتيں، اس ليے جب تم يہ ديكھو تو اللہ تعالى سے دعاء كرو، اور اس كى بڑائى بيان كرو، اور نماز پڑھو اور صدقہ و خيرات كرو"

اس كا معنى يہ ہوا كہ مسلمان گرہن كا وقت نہيں جانتے، ليكن جب بھى گرہن لگے وہ اس كام كى طرف جلدى كرتے ہيں جو شريعت نے ان كے ليے نماز وغيرہ مشروع كى ہے.

گرہن لگنےكا حادثہ ہونے كے وقت مسلمانوں كو يہ خدشہ لاحق رہتا تھا كہ كہيں يہ مصيبت كے نزول كا ڈراوا نہ ہو تو وہ اللہ تعالى سے دعاء و استغفار كرتے كہ اللہ ان سے وہ چيز ٹال دے جس كا انہيں خدشہ ہے، اور اس آخرى دور ميں جب علم فلكيات وغيرہ زيادہ پھيل گيا اور چاند و سورج كى گردش كا علم وسيع ہو چكا، اور يہ معلوم ہو گيا ہے كہ ہو سكتا ہے ماہر فلكيات اس كا وقت بھى معلوم كر ليں، تو علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اس سے اس كا حكم تبديل نہيں ہو سكتا.

اور مسلمانوں كو وہى كام كرنا چاہيے جس كا انہيں ايسا حادثہ ہونے كى صورت ميں كرنے كا حكم ديا گيا ہے، چاہے انہيں گرہن كا پہلے سے ہى علم كيوں نہ ہو جائے، ليكن گرہن لگنے كے اوقات كو معلوم كرنے كا اہتمام كرنا مشروع نہيں كہ اس كا انتظار كيا جائے، كيونكہ يہ ايسا كام ہے جس ہميں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم نہيں ديا.

جيسا كہ علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ ہو سكتا ہے كبھى گرہن كسى نقصان يا مصيبت كى علامت يا سبب ہو جو بندوں كو پہنچے.

اور سائل كا يہ كہنا كہ: گرہن كسى اذيت و ضرر كا باعث نہيں بنتا.

يہ قول بغير علم كے كہا گيا ہے، اور اللہ تعالى كى شريعت پر اعتراض ہے يہ لازم نہيں كہ گرہن كے وقت اللہ تعالى جو حادثہ كرتا ہے اس كا علم لوگوں كو بھى ضرور ہو، ہو سكتا ہے بعض لوگ اسے معلوم كر ليں اور بعض كو اس كا علم بھى نہ ہو.

اور مسلمانوں كى نماز اور دعاء كے سبب اللہ تعالى لوگوں سے شر دور كر دے جسے اللہ كے علاوہ كوئى اور نہيں جانتا، اس ليے مسلمان پر واجب يہى ہے كہ وہ اللہ تعالى كے حكم كو تسليم كرے، اور اس كى شريعت مطہرہ پر عمل كرے، اور اس كى حكمت پر ايمان ركھے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى علم والا اور حكمت والا ہے.

يہ عبارت فضيلۃ الشيخ عبد الرحمن البراك نے لكھوائى.

سورج اور چاند كا گرہن لگنا اللہ تعالى كى نشانيوں ميں سے دو نشانياں ہيں، اللہ تعالى اس سے اپنے بندوں كو خوف دلاتا ہے، اور انہيں روز قيامت كے احوال ميں سے بعض كى ياد دہانى كرواتا ہے كہ اس دن سورج لپيٹ ديا جائے گا اور ستارے توڑ ديے جائيں گے، اور وہ بے نور ہو جائيں گے، اور جب نظر پتھر جائے گى، چاند كى روشنى چھن جائےگى اور وہ بے نور ہو جائےگا، اور سورج و چاند جمع كر ديے جائيں گے، يہ ہے تخويف اور ڈرانے كى وجہ، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خشيت اور ڈرنے كى شدت اتنى ہوتى كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم گھبرا كر جلدى سے نكلتے اور خيال كرتے كہ جب گرہن لگتا كہ كہيں قيامت تو قائم نہيں ہو گئى، يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قيامت كو يادہ ركھنے كى قوت اور اس سے ڈر تھا.

ليكن آج ہم ہميں غفلت نے آدبوچا ہے، حتى كہ آج تو اكثر لوگ اسے ايك ظاہرى اور طبعى چيز شمار كرنے لگے ہيں، اور مخصوص قسم كى عينكيں اور كيمرے لے كر اس سے لطف اندوز ہونے كى كوشش كرتے ہيں، اور دنياوى علمى تفسير پر اقتصار كر بيٹھے ہيں، ليكن انہيں اس گرہن ميں جو حكمت پنہاں ہے اور آخرت كى ياد دہانى ہے وہ ياد نہيں، اور انہيں اس كا ادراك نہيں ہوتا.

يہ تو قسوت قلبى اور دل پتھر ہونے كى علامت ہے، اور آخرت كے معاملے ميں اہتمام نہ كرنے اور قيام قائم ہونے سے عدم خشيت اور بےخوف ہونے كى نشانى، اور مقاصد شريعت اور گرہن لگنے كے وقت جو نبى كريم صلى اللہ عليہ كا خوف اور ڈر ہوتا تھا اس سے جہالت ہے.

صحابہ كرام جب چاند يا سورج گرہن كى نماز كے ليے كھڑے ہوتے تو ان كے دلوں ميں يہ ہوتا كہ اگر يہ قيام قيامت كے ليے ہوتا تو وہ اپنى نمازوں سے غافل نہ ہوتے، اور اگر چاند اور سورج گرہن نہيں كيونكہ قيامت قائم ہو گئى تو نماز ادا كرنے كے ساتھ وہ خسارہ ميں نہيں، بلكہ انہيں اجرعظيم حاصل ہوا ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى ہميں ان لوگوں ميں سے بنائے جو اس سے ڈرتے ہيں، اور وہ انہيں قيامت كا خوف رہتا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد