اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ان ممالک میں روزہ جن میں دن یا تو بہت ہی چھوٹا اور یا پھر بہت لمبا ہوتا ہے

سوال

بعض اسکانڈنفی ممالک کی طرف سال بھر دن رات سے بہت ہی بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ رات صرف تین گھنٹے ہوتی ہے اور اکیس گھنٹے دن اگر تو رمضان کا مہینہ سردیوں میں آتا ہے تو ان ممالک میں مسلمان صرف تین گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں لیکن اگر رمضان گرمیوں میں آئے تو وہ دن لمبا ہونے کے سبب طاقت وقدرت نہ ہونے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے ۔
ہماری آپ سے گزارش ہے کہ افطاری اور سحری کے اوقات اور وہ مدت جس میں رمضان کے روزے رکھیں اس کی تحدید کر دیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شریعت اسلامیہ کامل اور سب حالات و لوگوں کو شامل ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

( آج میں نے تمہارے لۓ تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لۓ اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا ) المائدہ / 3

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

( آپ کہہ دو کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لۓ کون سی ہے آپ کہۓ کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تا کہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں ) الانعام ۔ 19

اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

( ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لۓ خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ) سبا / 28

اور اللہ تبارک وتعالی نے مومنوں کو روزوں کی فرضیت کے بارہ میں مخاطب کرتے ہوئےفرمایا :

( اے ایمان والو تم پر روزے فرض کۓ گۓ ہیں جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کۓ گۓ تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو ) البقرہ / 183

اور اللہ تبارک وتعالی نے روزے کی ابتداء اور انتہاء بیان کرتے ہوئےفرمایا :

( تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو ) البقرہ / 187

تو یہ حکم کسی ملک یا لوگوں کی ایک خاص قسم کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ اسے عام اور سب کے لۓ مشروع کیا ہے اور یہ لوگ جو کہ سوال کرنے والے ہیں یہ بھی اسی عمومی حکم میں داخل ہیں ۔

اور اللہ جل جلالہ اپنے بندوں پر بہت ہی مہربان اور نرمی کرنے والا ہے اس نے ان کے لۓ آسانی اور سہولت کے راہ مقرر کۓ ہیں جو کہ ان پر واجبات کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتے ہیں تو اللہ تعالی نے مسافر اور مریض کے لۓ یہ مشروع کیا ہے کہ وہ رمضان میں مشقت کو دور کرنے کے لۓ روزہ نہ رکھے بلکہ افطار کرے ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

( ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پآئے اسے روزہ رکھنا چاہۓ ہاں جو بیمار یا مسافر ہے اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہۓ اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے اور سختی کا نہیں ) البقرہ / 185

تو مکلفین میں سے جو بھی اس رمضان کے مہینہ کو پآئے اس پر روزے رکھنا واجب اور فرض ہیں اگرچہ دن لمبا یا چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ۔

اور اگر وہ روزے مکمل اور پورے کرنے سے عاجز آجائے اور اسے مرنے کا ڈر یا پھر مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہو تو اس کے لۓ یہ جائز ہے کہ وہ اتنا کھا لے جتنا اس کی تکلیف کو رفع کرے اور جان بچائے پھر اس کے بعد باقی سارا دن کھانے پینے سے رکا رہے اور اس پر دوسرے ایام میں اس دن کی قضاء ہو گی جب اس کے لۓ روزہ رکھنا ممکن ہو ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: فتاوی اللجنۃ الدائمۃ جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 114