جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خود بخود قئ آنے والے پر قضاء نہيں

سوال

ميں شوال كے چھ روزے ركھ رہا تھا كہ پانچويں روزے كو جمعہ والے دن فجر مجھے قئى آئى اور كھايا پيا سب نكل گيا، قئ بغير كسى قصد و ارادہ كے آئى تھى چنانچہ ميں نے وہ روزہ مكمل كيا اور ہفتہ والے دن بھى روزہ ركھا، آيا ميرا روزہ صحيح ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كا روزہ صحيح ہے، اور اس قئ سے روزہ كو كوئى نقصان نہيں ہوا كيونكہ جو شخص بغير كسى عمد اور قصد كے قئ كرے ا سكا روزہ صحيح ہے، ليكن جو شخص جان بوجھ كر خود قئ كرے ا سكا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس كى دليل ترمذى كى درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس پر قئ غلبہ كر جائے ( يعنى خو بخود آئے ) تو اس پر قضاء نہيں اور جو شخص خود قئ كرے اسے قضاء كرنى چاہيے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 720 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جس نے خود جان بوجھ كر قئ كى اس پر قضاء ہے، اور جسے قئ خود بخود آئے اس پركچھ نہيں.

استقاء كا معنى يہ ہے كہ: وہ خود جان بوجھ كر قئ كرے، اور ذرعہ كا معنى يہ ہے كہ: قئ اس كے اختيار كے بغير ہى آ جائے.

اس ليے جو شخص خود جان بوجھ كر قئ كرے گا اس پر قضاء لازم ہے ، كيونكہ اس سے اسكا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور جسے خود بخود بغير اختيار كے قئ آجائے اس پر كچھ نہيں؛ عام اہل علم كا قول يہى ہے.

خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں: ميرے علم كےمطابق تو اس مسئلہ ميں اہل علم كے مابين كوئى اختلاف نہيں " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 23 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا رمضان ميں قئ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر تو انسان جان بوجھ كرعمدا قئ كرے تو روزہ ٹوٹ جائيگا، اور اگر بغير عمد و ارادہ كے قئ خود بخود آئے تو روزہ نہيں ٹوٹتا، اس كى دليل ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس پر قئ غلبہ كر جائے ( يعنى خو بخود آئے ) تو اس پر قضاء نہيں اور جو شخص خود قئ كرے اسے قضاء كرنى چاہيے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 720 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

تو اگر آپ پر قئ غالب آ گئى ہو تو يہ روزہ نہيں توڑے گى، اگر انسان يہ محسوس كرے كہ اس كے معدہ ميں گڑبڑ ہے، اور اس ميں جو كچھ ہے وہ نكل جائيگا، تو كيا ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ:

آپ اسے باہر آنے سے روكيں ؟

نہيں.

يا پھر اسے جذب كر جاؤ ؟

نہيں.

ليكن ہم يہ كہينگے كہ: آپ حيادى موقف اختيار كريں، نہ تو جان بوجھ كر قئ كريں، اور نہ ہى اس قئ كو خودبخود آنے سے روكيں، اگر آپ جان بوجھ كر قئ كرينگے تو روزہ ٹوٹ جائيگا، اور اگر آپ قئ روكيں گے تو آپ كو ضرر اور نقصان ہوگا، اس ليے آپ اسے خود بخود آنے ديں آپ دخل نہ ديں، كيونكہ وہ نہ تو آپ كو ضرر دےگى اور نہ ہى روزہ توڑے گى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى الصيام صفحہ نمبر ( 231 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب