"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے توحید اور اس کی اقسام کا علم رکھنے والے بعض بھائیوں سے سنا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے توحید کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے – ( توحید ربوبیت اور توحید اسما و صفات ) یہ کس حد تک صحیح ہے اور کیا شیخ محمد ابراہیم توحید کی چار قسمیں بناتے تھے اور آخر میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا شیخ صالح الفوزان توحید کو چار قسموں میں تقسیم کرتے ہیں ؟
الحمد للہ.
تمام قسم کی تعریفات اللہ کے لائق ہیں ۔
نمبر 1 – ہمیں لازمی طور پر اس اصول کو جاننا چاہۓ کہ ( لا مشاحۃ فی الاصطلاح ) کہ اصطلاح میں کوئی جھگڑا ( قباحت ) نہیں اور یہ قاعدہ فقہاء اور اہل اصول کے ہاں معروف ہے – ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اور اصطلاحات میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ وہ مفسدہ پر مبنی نہ ہوں ( مدارج السالکین 3 / 306)
اور لا مشاحۃ کا معنی ہے کہ کوئی تنازع نہیں ۔
نمبر 2 – قدیم زمانہ سے علماء نے احکام شرعیہ کی تقسیمات کی ہیں اور اس تقسیم کا مقصد شرعی احکام اور نصوص کے فہم میں سہولت اور آسانی پیدا کرنا ہے ۔
خصوصا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی معرفت میں کمزوری ، عربی ، اور عجمی اور اختلاط سے اس تقسیم کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔
پس علماء نے دیکھا کہ فہم میں سہولت اور آسانی پیدا کرنے کے لۓ مسائل کی گروپ بندی اور اصول بنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ مستحسن کاموں میں سے ہے ۔ کیونکہ حصول علم کو مسلمانوں کے لۓ آسان کرنے کے لۓ یہ لازمی ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اصول فقہ کے بانی ہیں اور ان کی تقسیمان کو بہت مقبولیت حاصل ہے انہیں کے ذکر کردہ اصول کو بنیاد بنا کر کمی بیشی کے ساتھ اہل اصول نے آگے قدم بڑھایا ہے ، اسی طرح دیگر تمام علوم شرعیہ پر کام ہوا ہے جیسا کہ علم تجوید ، اس کی تقسیم و ترتیب ، علوم قرآن اور علم توحید وغیرہ ۔
نمبر 3 – سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ شیخ الاسلام نے توحید کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے اور الشیخ محمد بن ابراہیم اور الشیخ فوزان نے چار قسموں میں تقسیم کیا ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ، آپ کی خدمت میں تفصیل بیان کرتا ہوں ۔
بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ توحید دو قسموں میں منقسم ہے ۔
1- توحید معرفۃ واثبات ۔
یہ عزوجل کے وجود ربوبیت اور اس کے اسماء و صفات پر ایمان لانے پر مشتمل ہے ۔
2- توحید قصد و طلب ۔
یہ اللہ ذوالجلال کی الوہیت پر ایمان لانے کو شامل ہے ۔
جس نے توحید کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے اس نے آسان فہمی کے لۓ گذشتہ تقسیم کو کھول کر بیان کیا ہے اور کہا کہ توحید تین اقسام میں منقسم ہے ۔
1- توحید ربوبیت : اللہ ذوالجلال پر ایمان اس میں داخل ہے ۔
2- توحید الوہیت یا عبادۃ : اور دونوں کا ایک معنی ہے ۔
3- توحید اسماء و صفات
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں اس تقسیم میں کوئی اشکال نہیں جب تک وہ کسی باطل چیز پر دلالت نہیں کرتی اور اصطلاح میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ تفصیل صرف اور صرف فہم میں آسانی پیدا کرنے کے لۓ ہے جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا فہم میں کمی واقع ہوتی گئي اور علماء کرام شرح و تفصیل کی ضرورت محسوس کرنے لگے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو سائل نے ذکر کیا ہے اس میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ جس نے توحید کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے اس نے دو قسموں میں دوسروں کے اضافہ کردہ چیز کو جمع کر دیا ہے اور جس نے تین یا چار قسموں میں تقسیم کیا ہے تو اس نے ان کی تفصیل ذکر کر دی ہے ۔
تمام کے تمام ( علماء ) اس بات پر متفق ہیں کہ توحید اوپر ذکر کردہ چیزوں پر مشتمل ہے یہ اصطلاحی تقسیم ہے اس میں کوئی مانع نہیں بشرطیکہ اس سے کوئی فساد پیدا نہ ہوتا ہو جیسے توحید کے بعض معانی اس سے نکال دیۓ جائیں جو اس میں داخل تھے یا بعض معانی داخل کر دۓ جائیں جو اس میں داخل نہیں تھے اور ( شاید ) کبھی ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہم اس سے زیادہ تفصیل کے محتاج ہوں گے پس علماء فہم میں آسانی پیدا کریں گے ۔
توحید کی تینوں اقسام کے معانی کا مختصر بیان ۔
ربوبیت پر ایمان : اللہ ذوالجلال کو اس کے افعال یعنی ( کائنات ، مخلوقات ) کو پیدا کرنے اور مارنے وغیرہ میں اکیلا جاننا ۔
الوہیت پر ایمان : اللہ ذوالجلال کو بندوں کے افعال ، قول و فعل ظاہر و باطن کے لۓ منفرد جاننا ہے اور اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا ۔
اسماء اور صفات پر ایمان : یعنی اللہ تعالی کے ان اسماء اور صفات پر ایمان رکھنا جو اللہ تعالی نے اپنی ذات مبارک کے لۓ ثابت کۓ ہیں اور ان کی نفی کرنا جن سے اللہ تعالی نے نفی کی ہے ۔
علماء کرام کا توحید کو اس طرح تقسیم کرنا بدعت نہیں ہے بلکہ یہ تیسیری اور چوتھی صدی سے معرفت ہے جیسا کہ شیخ بکر ابو زید ( رکن ہیئۃ کبار علماء ) نے اپنی کتاب ( الرد علی المخالف ) میں ذکر کیا ہے اور اس تقسیم کو ابن جریر طبری اور دوسرے علماء سے نقل کیا ہے ۔
تنبیہ : سائل کی ذکر کردہ یہ بات صحیح نہیں کہ شیخ الاسلام نے توحید کو دو قسموں ربوبیہ اور اسماء و صفات میں تقسیم کہا ہے بلکہ انہوں نے توحید کی دو قسمیں توحید بالمعرفۃ والاثبات اور توحید القصد والطلب ذکر کی ہیں جب کہ توحید ربوبیت اور اسماء و صفات پہلی قسم میں داخل ہے ۔ دیکھۓ مجموع فتاوی ( 15 / 164) والفتاوی الکبری (5/ 250)
واللہ اعلم.