"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ہر وہ شخص جس پر كفر كا حكم لگايا گيا ہو اس كے سب اعمال باطل ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ شرك كرتے تو ان كے سارے عمل تباہ كر ديے جاتے جو عمل وہ كرتے رہے ہيں .
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى ايمان كے ساتھ كفر كرے تو اس كے اعمال تباہ ہو گئے، اور وہ آخرت ميں نقصان پانے والوں ميں سے ہوگا .
بہت سارے اہل علم كہتے ہيں كہ اگر وہ نماز كے فرض ہونے كا قائل ہو تو وہ كافر نہيں، يعنى كفر مخرج عن الملۃ نہيں ہوگا، ليكن وہ كفر اصغركا مرتكب ہوگا، اور اس كا يہ عمل زانى اور چور سے بھى شنيع و قبيح ہوگا.
ليكن اس كے باوجود اگر وہ شرعى طريقہ سے روزہ ركھتا اور حج كرتا ہے تو اس كا روزہ اور حج صحيح ہوگا، ليكن نماز كى پابندى نہ كرنے كا جرم عظيم جرم ہوگا، اور وہ عظيم خطرہ پر ہے سب اہل علم كے ہاں وہ شرك اكبر ميں ہى نہ پڑ جائے.
بعض علما نے اكثر كا قول بيان كيا ہے كہ اگر وہ سستى كے ساتھ نماز ترك كرتا ہے تو وہ كفر اكبر كا مرتكب نہيں ہوگا، بلكہ اس سے كفر اصغر كا مرتكب ہوگا، اور اس كا جرم عظيم ہے اور زنا و چورى اور والدين كى نافرمانى اور شراب نوشى سے بھى بڑا اور شنيع و قبيح جرم ہے، اللہ ہميں محفوظ ركھے.
ليكن صحيح يہى قول ہے كہ اوپر بيان كردہ دلائل كى بنا پر وہ كفر اكبر كا مرتكب ہو گا اللہ ہميں محفظوز ركھے، اس ليے جس نے روزہ ركھا اور نماز ادا نہ كى تو نہ اس كا روزہ ہے اور نہ ہى اس كا حج " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 15 / 179 ).
واللہ اعلم .