"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
مسلمان وہ ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى كا مطيع اور فرمانبردار ہو اس كے احكام كو تسليم كرے، اور شريعت كے امر اور نواہى كے تابع ہو كر اس پر عمل كرے، مسلمان اللہ كى عبادت كرتا ہے كيونكہ وہ اس كا خالق و مالك اور عبادت كا مستحق ہے، وہ اللہ تعالى كى عظمت و قيوميت اور وحدانيت پر ايمان ركھتا ہے، اللہ تعالى اس كے دل اور جان كا مالك ہے، اور اس نے اللہ كے ليے اپنى محبت كو اپنى معاش اور معاد كا مقصد بنايا ہے، اور اميد ركھى ہے كہ وہ اسے قبول كرتے ہوئے نيك لوگوں ميں شامل كريگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آپ كہہ ديجئے كہ مجھ كو ميرے رب نے ايك سيدھا راستہ بتايا ہے كہ وہ ايك مستحكم دين ہے جو ابراہيم عليہ السلام كا طريقہ ہے، جو اللہ كى طرف يكسو تھے، اور وہ شرك كرنے والوں ميں سے نہ تھے .
آپ فرما ديجئے كہ يقيناً ميرى نماز ميرى سارى عبادت ميرا جينا اور ميرا مرنا يہ سب خالصتا اللہ ہى كے ليے ہے جو سارے جہاں كا مالك ہے .
اس كا كوئى شريك نہيں اور مجھ كو اسى كا حكم ہوا ہے اور ميں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں الانعام ( 161 - 163 ).
جو كوئى بھى يہ معنى سمجھ لے اور اسے اس كا شعور ہو جائے وہ اپنى زندگى كے تمام معاملات ميں اللہ كے قرب كى نيت ركھتا ہے، چنانچہ جب وہ سوتا ہے اس سے وہ اجر و ثواب كى نيت ركھے، كہ وہ سو اس ليے رہا ہے كہ بيدار ہو كر عبادت كرنے كے ليے راحت حاصل كرے، اور جب كھائے يا پئے تو اس سے اس كا مقصد اللہ كے حقوق كى ادائيگى كے ليے قوت كا حصول ہوتا ہے، اور جب شادى كرتا ہے تو اسكا مقصد عفت و عصمت كو محفوظ ركھا ہوتا ہے، اور حرام سے اجتناب كر كے حلال ميں مشغول رہتا ہے، اور جب اولاد طلب كرتا ہے تو اس كا مقصد نيك و صالح اولاد ہوتا ہے جو زمين ميں اللہ كے منہج كو چلائے، اور جب كلام كرتا ہے تو خير و بھلائى كى بات كرتا ہے، اور جب خاموش رہتا ہے تو شر سے رك كر ايسا كرتا ہے.
اپنے اور اپنے اہل و عيال پر خرچ كرنے وہ اجروثواب كى اميد ركھتا ہے، اور جب تعليم حاصل كرتا ہے، اور پڑھتا ہے تو بھى اس ميں اجروثواب كى نيت ركھتا ہے.. تو اس طرح سارے اعمال ميں اس كا مقصد يہى ہوتا ہے.
ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چاہيے كہ وہ وہى مباح كام كرے جو اس كے ليے اطاعت و فرمانبردارى ميں ممد و معاون ہوں، اور اس كا اس سے مقصد اطاعت ميں معاونت ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 460 - 461 ).
ايك مسلمان اپنى زندگى اور سارے اعمال كس طرح اللہ كے ليے بنانے كى نيت كر سكتا ہے، جو اختصار كے ساتھ بيان ہوا اور اسے دو چيزوں ميں اجمالى طور پر بيان كرنا ممكن ہے:
1 - وہ اپنے اعمال ميں شريعت كا التزام كرے، نہ تو كوئى واجب اور فرض ترك كرے، اور نہ ہى كسى ممنوعہ امر كا مرتكب ٹھرے.
2 - وہ اپنے دل احساس ركھے كہ وہ اس عمل كے ذريعہ اجروثواب اور اللہ كے قرب تك كيسے پہنچ سكتا ہے ـ چاہے وہ اصل ميں دنياوى كام ہى ہو ـ.
اور يہ چيز وزن كم كرنے كے متعلق آپ كے مخصوص سوال پر فٹ كيا جا سكتا ہے، چنانچہ جو شخص اپنى صحت كى حفاظت كرنے كے ليے وزن كم كرنا چاہتا ہے تا كہ وہ اپنے واجبات اور فرائض كى بجا آورى اور اللہ كے حقوق كى مكمل طور پر ادائيگى كر سكے، يا اس كا ارادہ بيوى كے ليے خوبصورت بننا ہو تا كہ وہ آپس ميں سعادت و مودت اور محبت كى زندگى بسر كر سكيں، يا اس مخلوق كے ليے خوبصورتى اختيار كرنے كا ارادہ ہو تا كہ وہ لوگوں كے درميان مقبول بن سكے، اور ان سے تعلقات ركھ سكے، تو يہ ايك اچھا اور بہتر مقصد ہے ان شاء اللہ اس پر اسے اجروثواب حاصل ہو گا.
اسى طرح اس مباح فعل سے وہ كفار كى مشابہت، يا پھر نوجوان لڑكيوں كو فتنہ ميں ڈالنے كے ليے خوبصورت بنے، يا اس طرح كے دوسرے شيطانى مقاصد تو اس سے وہ سزا اور گناہ كا مستحق ٹھرے گا.
اور اسى طرح باقى سارے مباح امور سر انجام دينے والے كو اجروثواب اسى صورت ميں حاصل ہو گا جب وہ اس ميں خير و فضل اور اجروثواب كے مقاصد كى نيت كرے.
ابن الحاج رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مباح نيت كے ساتھ مندوب ميں منتقل ہو جاتا ہے " انتہى
ديكھيں: المدخل ( 1 / 21 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ نے ان مقربين كے خواص ذكر كيے ہيں اچھى اور بہتر نيت كى وجہ سے جن كے حق ميں مباح امور اطاعت و فرمانبردارى اور تقرب ميں بدل جاتے ہيں، تو ان كے حق ميں مباح متساوى طرفين نہيں ہوتے، بلكہ ان كے اعمال راجح ہيں " انتہى
ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 107 ).
اور حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا:
" تم جو بھى نفقہ اور خرچ كرو اور اس سے مقصد اللہ كى رضا ہو تو اس پر تمہيں اجروثواب حاصل ہو گا، حتى كہ جو چيز تم اپنى بيوى كے منہ ميں ركھتے ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 56 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1628 ).
امام نووى رحمہ اللہ اس حديث پر تعليقا كہتے ہيں:
" اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: جب مباح چيز كے ساتھ اللہ كى رضا كا ارادہ كيا جائے تو وہ اطاعت بن جاتا ہے اور اس پر اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اور اسى چيز پر متنبہ كرتے ہوئے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" حتى كہ وہ لقمہ جو تم اپنى بيوى كے منہ ميں ڈالتے ہو "
كيونكہ انسان كى بيوى دنياوى حصہ ميں سب سے زيادہ خاص چيز اور اس كى مباح شہوات اور جائے پناہ ہے، اور جب وہ اس كے منہ ميں لقمہ ركھے تو عام طور پر عادتا مباح سے ہنسى و مزاح اور اور لذت حاصل كرنے ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ چيز اطاعت و فرمانبردارى اور اخروى امور سے سب سے زيادہ بعيد ہے، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا كہ اگر اس لقمہ ميں بھى اللہ كى رضا كا مقصد ہو تو اس سے اجروثواب حاصل ہوتا ہے، تو اس حالت كے علاوہ دوسرى حالتوں ميں جب اللہ كى رضا كا ارادہ ہو تو بالاولى اجروثواب حاصل ہو گا، اور اس ضمن ميں يہ بھى آتا ہے كہ انسان جب كوئى ايسا كام اور چيز كرے جو اصل ميں مباح ہو، اور اس كا مقصد اللہ كى رضا ہو تو اسے اس پر اجر و ثواب حاصل ہو گا يہ بالكل اس كھانے كى طرح جس ميں يہ نيت كى جائے كہ اس سے اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى ميں تقويت حاصل كرنى ہے، اور اسى طرح نيند سے ارادہ يہ ہو كہ وہ نشيط اور چست ہو كر عبادت كے ليے اٹھ سكے، اور اپنى بيوى اور لونڈى سے استمتاع اور فائدہ اس ليے حاصل كرتا ہے تا كہ اپنى نظر اور نفس كو حرام سے بچا سكے، اور بيوى كا حق پورا كر سكے، اور اسے نيك و صالح اولاد مل جائے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى بھى يہى ہے:
" اور تم ميں سے كسى ايك كے ٹكڑے ( شرمگاہ ) ميں بھى صدقہ ہے "
واللہ تعالى اعلم " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 11 / 77 ).
اور امام سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مباح امور اور عادات ميں اگر انسان نيك نيت ركھے تو بندے كو اس كا اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اس كى انہوں نے جو دليليں دى ہيں ان ميں سب سے بہتر اور اچھا استدلال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے ہے:
" اور ہر آدمى كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو "
اس ليے اگر اس سے اللہ كے قرب كا مقصد ہو تو اس پر انسان كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اور اگر وہ قرب كا مقصد نہ ركھے تو اسے كوئى ثواب حاصل نہيں ہوتا " انتہى
ديكھيں: شرح نسائى للسيوطى ( 1 / 19 ).
اور اس سلسلہ ميں اہل علم كى جانب سے بہت سارى نقول موجود ہيں.
مزيد آپ سوال نمبر ( 69960 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن ـ ہمارے سائل بھائى ـ آپ كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ ہم نے مباحات ميں اچھى اور قرب كى نيت كرنے كے متعلق جو كچھ بيان كيا ہے وہ بطور وجوب اور لازم نہيں؛ كيونكہ اگر يہ واجب اور لازم ہو تو مباح نہيں ہو گا، بلكہ وہ واجب ہو گا اور اس كے ترك كرنے پر انسان گنہگار ہوتا ہے.
ليكن جس شخص كا كسى كام كو سرانجام دينے ميں مقصد صرف اپنى نفسى رغبت، يا اپنى شہوت يا حاجت و ضرورت پورى كرنا ہو، يا مباح سے فائدہ حاصل كرنا ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں جو وہ كر رہا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اسے علم ہو كہ وہ جو كر رہا ہے اس كى شريعت نے رخصت اور اجازت دى ہے؛ ليكن جس طرح مجرد وہ عمل كرنے كا اس پر كوئى گناہ نہيں اسى طرح اس كو مجرد وہ عمل كرنے كا كوئى اجروثواب حاصل نہيں ہو گا.
واللہ اعلم .