"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
آج سے پندرہ برس قبل اسلام ميں عورت كے حقوق كے بارہ ميں سنا تو ميں نے اسلام قبول كر ليا، ميرا سوال يہ ہے كہ:
مردوں كےذمہ اپنى بيويوں كا نان و نفقہ واجب ہے، اور جب خاوند اپنى بيوى كو كچھ معين اشياء كى اجازت دے دے تو اس كے ليے ممانعت نہيں، اگر خاوند اپنى بيوى كو كام كے ليے موقع غنيمت جانے تو بيوى اپنے آپ كو كس طرح بچا سكتى ہے؟
مثلا خاوند بيوى كو اپنى تجارت ميں كام كرنے كا كہے، اور بچوں كى ديكھ بھال كرے، اور زيادہ سے زيادہ بچے جنے، اور بچے كى پيدائش كے ايك ہفتہ بعد اسے اپنے ساتھ كام پر لے جاؤں، دوكان پر ميرى ذمہ دارى اشياء فروخت كرنا، اور بچے كو پرورش گاہ چھوڑنا، اور خاوند كے ساتھ كام كاج كرنا، اور گھر ميں كھانا تيار كرنا، اور گھر كى صفائى كرنا ہوتا ہے، بعض اوقات وہ ميرے ساتھ تعاون كرتا ہے، ليكن وہ مجھے ياد دہانى كيے بغير كوئى كام نہيں كرتا كہ يہ ميرا كام تھا، اور مجھ پر اس كا كرنا واجب تھا. كيا ميں گھر سے كام كے ليے نكلنے كا انكار كر سكتى ہوں، ميں صرف گھر ميں ہى رہوں اور مجھ پر ميرا خاوند ہى خرچ كرے؟
يا كہ مجھ پر اپنے خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہے، كيونكہ وہ مجھ سے كسى حرام فعل كا مطالبہ نہيں كرتا؟
ميں اسے اطمنان دلانے كى بار بار كوشش كر كے تھك چكى ہوں كہ ميرى جگہ تو صرف گھر ہے، اور اسے ميرى ضروريات كا خيال ركھنا چاہيے، ليكن وہ ہميشہ ہى اس كے كام سے ناراض رہتا ہے.
كلام طويل ہونے پر مجھے افسوس ہے، ليكن بہت سى عام بہنوں كے ہاں بھى يہى مشكل ہے، كہ اللہ تعالى كى طرف سے انہيں عطا كردہ حقوق سلب ہو رہے ہيں ؟
الحمد للہ.
اللہ تعالى نے عورت پر مرد كو دو معاملوں كى بنا پر قواميت اور حكمرانى دى ہے:
ان ميں سے ايك تو اللہ تعالى كى جانب سے وہبى ہے، اور دوسرى مرد كى جانب سے كسبى ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
مرد عورتوں پر حاكم ہيں، اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں النساء ( 34 ).
جنس مرد كو اللہ تعالى نے جنس عورت پر عقل و تدبير اور قوت كى بنا پر فضيلت دى ہے جس ميں كسى قسم كا جدال نہيں ہے، اور يہ ايك وہبى چيز ہے، ليكن كسبى چيز خاوند كا اپنى بيوى پر خرچ كرنا جو كہ واجبات ميں شامل ہوتا ہے، يہ بھى عورت پر مرد كى قواميت كى دليل ہے.
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عورتوں كے متعلق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور اس سے ڈرو، تم نے انہيں اللہ تعالى كى امانت كے ساتھ حاصل كيا ہے، اور ان كى شرمگاہوں كو اللہ تعالى كےكلمہ كے ساتھ حلال كيا ہے، اچھے طريقہ اور احسن طور پر ان كا نان و نفقہ اور ان كا لباس تمہارے ذمہ ہے"
صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 1218 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس كى شرح ميں كہتے ہيں:
اس حديث ميں خاوند پر بيوى كا نان و نفقہ اور اس كا لباس واجب ہونے كى دليل ہے، اور يہ اجماع كے ساتھ ثابت ہے.
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 8 / 184 ).
اور خاوند كے ذمہ نان و نفقہ كے وجوب كے اسباب ميں يہ بھى ہے كہ: بيوى پر جو خاوند اور اس كى اولاد كے واجبات ہيں اس كى بنا پر كمائى سے محبوس ہے.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اہل و عيال پر نفقہ كے وجوب كا باب :
اور اس كے بعد ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بيان كى ہے:
كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" افضل صدقہ وہ ہے جو غنا كے وقت ہو، اور اوپر والا ہاتھ نيچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور اس سے شروع كرو جو تمہارى عيالت ميں ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1426 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1034 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ ترجمۃ الباب ميں اہل سے مراد بيوى ہے... اور معنى كے اعتبار سے يہ كہ خاوند كے حق كى بنا پر وہ كمائى كرنے سے محبوس ہے، اور اس نان و نفقہ كے وجوب پر اجماع منعقد ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 625 ).
لھذا خاوند پر واجب ہے كہ وہ اللہ تعالى سے ڈرے جو اس كا پروردگار ہے، اور بيوى اور اولاد كى شكل ميں اللہ تعالى نے جو اس كے پاس امانت ركھى ہے اس كى حفاظت كرے، اور اس كے ليے كسى بھى صورت ميں جائز نہيں كہ وہ بيوى كو ايسے كام كرنا كا كہے جس كى اس ميں طاقت نہيں.
اور اسى طرح بيوى كے ذمہ كام كاج اور گھر كا خرچ اور خاوند پر خرچ كرنا بھى نہيں ہے، بلكہ نان و نفقہ تو خاوند پر واجب ہے، چاہے بيوى كتنى بھى مالدار ہى كيوں نہ ہو.
عورت كا گھر ميں ايك عظيم دور ہوتا ہے وہى ہے جو گھر كى حفاظت اور اس كى ديكھ بھال كرتى ہے، اور گھر كى صفائى اور ترتيب و تزيين كر كے خاوند كا حق ادا كرتى ہے، اور كھانا كى تيارى اور اولاد كى ديكھ بھال اور اسى طرح دوسرے بہت سے بڑے كام بھى سرانجام ديتى ہے.
عورت پر گھر سے باہر نكل كر كام كرنا واجب نہيں، اور خاص كر جب اس كا گھر سے نكلنے ميں اجنبى مردوں كے ساتھ اختلاط ہوتا ہو، يا پھر گھر اور بچوں كے واجبات ميں كمى و كوتاہى ہوتى ہو تو اس كا گھر سے باہر نكلنا بالكل جائز نہيں ہے.
لھذا نان و نفقہ - جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے- بالاجماع خاوند كے ذمہ واجب ہے، تو اس ليے يہ خاوند كے علم ميں ہونا چاہيے، اور اسے چاہيے كہ وہ عورت كو گھر ميں محفوظ اور بچا كر ركھے، تا كہ اللہ تعالى كى جانب سے اس پر جو وجبات ہيں وہ ادا كر سكے.
آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 5591 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
واللہ اعلم .