"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
نمازى كے ليے نماز ميں سجدہ سہو كب كرنا مشروع ہے ؟
الحمد للہ.
اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت اور اس دين كامل كے محاسن ميں سے ہے كہ اس نے ان كى عبادات ميں جو خلل اور نقصان پيدا ہوتا ہے جس سے مكمل طور پر بچنا ممكن نہيں اسے يا تو نوافل كے ذريعہ يا پھر استغفار وغيرہ كے ساتھ پورا كرنا مشروع كيا ہے.
ان كى نمازوں ميں پيدا ہونے والے نقصان اور اس كى كمى و كوتاہى پورى كرنے كے ليے اللہ تعالى نے سجدہ سہو مشروع كيا ہے؛ ليكن يہ كچھ خاص امور كو پورا كرنے كے ليے مشروع ہے، ہر چيز كو سجدہ سہو پورا نہيں كرتا، يا ہر چيز كے ليے سجدہ سہو مشروع نہيں.
فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سجدہ سہو كے اسباب كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
نماز ميں سجدہ سہو كے اجمالى طور پر تين اسباب ہيں:
1 - زيادہ.
2 - نقصان.
3 - شك.
زيادہ: مثلا انسان ركوع يا سجدہ يا پھر قيام يا بيٹھ زيادہ جائے.
نقصان: مثلا انسان كسى ركن ميں كمى كردے يا پھر نماز كے واجبات ميں سے كوئى واجب ناقص رہے.
شك: نمازى كو ادا كردہ نماز ميں تردد ہو كيا كتنى ادا ہوئى ہے، تين يا چار ركعت.
اگر كوئى شخص نماز ميں جان بوجھ كر عمدا ركوع يا سجدہ يا قيام زيادہ كرے يا زيادہ بار بيٹھ جائے تواس كى نماز باطل ہو جائيگى؛ كيونكہ اس نے زيادتى كى ہے، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بتائے ہوئے طريقہ كے علاوہ كسى اور طرح نماز ادا كى ہے؛ اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے كہ:
" جس نے كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
ليكن اگر وہ بھول كر نماز ميں زيادتى كر لے تو اس كى نماز باطل نہيں ہو گى، ليكن سلام كے بعد سجدہ سہو كرنا ہو گا، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر يا عصر كى نماز ميں ايك دن دو ركعت كے بعد سلام پھير ديا اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس كا بتايا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے باقى مانندہ نماز پڑھائى اور سلام پھير كر دو سجدے كيے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 482 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 573 ).
اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ايك روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ظہر كى نماز ميں پانچ ركعت پڑھا ديں، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ سے عرض كيا گيا:
كيا نماز زيادہ كر دى گئى ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كيا: كيا ہوا ہے ؟
صحابہ نے عرض كيا: آپ نے پانچ ركعت پڑھائى ہيں !!
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے پاؤں اكٹھے كر كے قبلہ رخ ہو كر دو سجدے كيے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 404 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 572 ).
اور نماز ميں كمى اور نقصان كے متعلق يہ ہے كہ اگر انسان نماز كے ركن ميں كمى كر دے تو يہ درج ذيل حالتوں سے خالى نہيں:
يا تو دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچنے سے قبل اسے ياد آ جائے؛ تو اس وقت اسے واپس پلٹ كر وہ ركن اور اس كے بعد كو مكمل كرنا لازم ہو گا.
يا پھر دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچ كر اسے ياد آئے، تو اس صورت ميں اس كى دوسرى ركعت اس ركن كے بدلے ميں ہو گى جو اس نے ترك كيا تھا، چنانچہ وہ اس كے بدلے ايك ركعت اور ادا كرے گا، ان دونوں حالتوں ميں سلام كے بعد سجدہ سہو كيا جائيگا.
اس كى مثال درج ذيل ہے:
ايك شخص پہلى ركعت ميں ايك سجدہ كرنے كے بعد اٹھ كھڑا ہوا نہ تو بيٹھا اور نہ ہى دوسرا سجدہ كيا، اور جب قرآت كرنا شروع كى تو اسے ياد آيا كہ نہ تو وہ دونوں سجدوں كے مابين بيٹھا ہے، اور نہ ہى اس نے دوسرا سجدہ كيا ہے، تو اس وقت وہ واپس پلٹ كر دونوں سجدوں كے مابين بيٹھے اور پھر سجدہ كر كے اپنى باقى مانندہ نماز مكمل كرے، اور سلام كے بعد سجدہ سہو كرے گا.
اور دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچ كر ياد آنے والے كى مثال يہ ہے كہ:
پہلى ركعت ميں وہ ايك سجدہ كے بعد اٹھ كھڑا ہوا اور دوسرا سجدہ نہ كيا اور نہ ہى دونوں سجدوں كے مابين بيٹھا، ليكن اسے يا اس وقت آيا جب وہ دوسرى ركعت ميں دونوں سجدوں كے درميان بيٹھا، تو اس حالت ميں اس كى دوسرى ركعت پہلى ركعت شمار ہو گى، اور وہ اپنى نماز ميں ايك ركعت زيادہ ادا كر كے سلام پھيرنے كے بعد سجدہ سہو كرے گا.
اور كسى واجب ميں نقص ہونے كى صورت يہ ہے كہ:
چنانچہ اگر كسى واجب ميں نقص رہ جائے اور اس كى جگہ سے اسے اگلى جگہ منتقل كر دے، اس كى مثال درج ذيل ہے:
مثلا وہ سجدہ ميں سبحان ربى الاعلى بھول جائے، اور سجدہ سے سر اٹھانے كے بعد ياد آئے تو اس نے بھول كر نماز كے واجبات ميں سے ايك واجب ترك كر ديا؛ چنانچہ وہ اپنى نماز جارى ركھے گا اور سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كرے گا، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہلى تشھد ترك كى تو اپنى نماز جارى ركھى تھى اور واپس نہيں بيٹھے، اور انہوں نے سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كيا تھا.
اور شك زيادتى اور نقصان ميں تردد كو كہتے ہيں: اس كى مثال يہ ہے:
آيا اس نے تين ركعت ادا كى يا چار، اس صورت كى دو حالتيں ہيں:
يا تو اسے زيادہ يا نقصان ميں سے كسى ايك راجح ہو گى، تو جو طرف اسے راجح معلوم ہو اس پر نماز كى بنا كر كے نماز مكمل كرے، اور سلام پھيرنے كے بعد سجدہ سہو كرے.
يا پھر اس كے نزديك نقصان اور زيادتى ميں سے كوئى بھى راجح نہيں؛ تو اسے يقين پر عمل كرنا چاہيے جو كہ كم ركعات ہيں، اس پر وہ اپنى نماز مكمل كرتے ہوئے سلام سے قبل سجدہ سہو كرے گا.
اس كى مثال يہ ہے كہ: ايك شخص نے ظہر كى نماز ادا كى اور تيسرى ركعت ميں اسے شك ہوا كہ آيا وہ تيسرى ركعت ميں ہے يا چوتھى ميں ؟ اور اس كے نزديك تيسرى ركعت راجح ٹھرى تو وہ ايك ركعت ادا كر كے سلام پھير كر سجدہ سہو كر لے.
اور اگر دونوں چيزيں برابر ہوں تو اس كى مثال يہ ہے كہ:
ايك شخص ظہر كى نماز ادا كر رہا ہے اور اسے شك ہوا كہ يہ تيسرى ركعت ہے يا چوتھى؟ اور اس كے نزديك يہ راجح نہيں كہ يہ تيسرى ركعت ہے يا چوتھى؛ تو وہ يقين پر بنا كرے يعنى كم ركعات پر اور اسے تيسرى ركعت بناتے ہوئے چوتھى ركعت ادا كر كے سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كر لے.
اس سے يہ معلوم ہوا كہ اگر كوئى واجب رہ جائے، يا پھر ركعات كى تعداد ميں شك ہو اور دونوں ميں سے كچھ راجح نہ ہو تو سجدہ سہو سلام سے قبل كيا جائيگا.
اور نماز ميں كچھ زيادتى ہو گئى يا پھر شك كى صورت ميں دونوں وجہوں ميں سے ايك راجح ہو تو سجدہ سہو سلام كے بعد كيا جائيگا.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 14 / 14 - 16 ).
واللہ اعلم .