"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جب بچہ زندہ پيدا ہو اور چيخ و پكار كرے اور پھر مر جائے تو بغير كسى اختلاف كے اسےغسل بھى ديا جائيگا اور اس كا نماز جنازہ بھى ادا كيا جائيگا.
المغنى ميں درج ہے:
" اہل علم اس پر متفق ہيں كہ جب بچہ كى زندگى معلوم ہو اور وہ چيخ و پكار كرے تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى.
ليكن اگر وہ چيخ و پكار نہ كرے تو امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر وہ چار ماہ كا حمل ہو تو اسے غسل بھى ديا جائيگا اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، سعيد بن مسيب اور ابن سيرين اور اسحاق رحمہ اللہ كا قول بھى يہى ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى فوت شدہ پيدا ہوئى بچى كى نماز جنازہ ادا كى تھى "
ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 2 / 328 ).
اور كتاب " مسائل الامام احمد " جسے ان كے بيٹے عبد اللہ نے روايت كيا ہے ميں درج ہے:
عبد اللہ كہتے ہيں كہ ميرے والد سے مولود كے متعلق دريافت كيا گيا كہ اس كى نماز جنازہ كب ادا كى جائيگى ؟
تو ان كا جواب تھا:
" اگر چار ماہ كا حمل ساقط ہو جائے تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى "
كہا گيا: اگر وہ چيخ و پكار نہ بھى كرے تو پھر بھى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ؟
انہوں نے جواب ديا: جى ہاں "
ديكھيں: مسائل امام احمد التى رواھا ابنھا عبد اللہ ( 2 / 482 ) مسئلہ نمبر ( 673 ).
اس كى زندگى ميں شك كے باوجود اس كى نماز جنازہ ادا كرنے ميں صاحب مغنى نے علت بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" اس كى نماز جنازہ ادا كرنا اس كے ليے اور اس كے والدين كے ليے خير و فلاح كى دعا كرنا ہے، اس ليے زندگى كے وجود ميں احتياط اور يقين كى ضرورت نہيں، بخلاف ميراث و وراثت كے مسئلہ ميں "
ديكھيں: المغنى ( 2 / 328 ).
بلا شك يہ بہت ہى باريك اور دقيق فقہ اور سمجھ ہے كيونكہ وراثت ميں دوسروں كے حقوق بھى ہوتے ہيں، ليكن نماز جنازہ تو بندے اور اس كے رب سے متعلق ہے كسى اور سے نہيں.
ليكن جو حمل چارہ ماہ كا نہ ہو: اسے نہ تو غسل ديا جائيگا اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، بلكہ اسے ايك كپڑے ميں لپيٹ كر دفن كر ديا جائيگا، كيونكہ بچہ ميں روح تو چار ماہ كے بعد پھونكى جاتى ہے، اس سے قبل تو وہ جان نہيں چنانچہ اس كى نماز جنازہ ادا نہيں كى جائيگى جس طرح جمادات اور خون ہوتا ہے.
انہوں نے درج ذيل فرمان نبوى سے استدلال كيا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ساقط شدہ كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور اس كے والدين كے ليے مغفرت و رحمت كى دعا كى جائيگى "
اسے ابو داود نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2535 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
سقط يعنى ساقط شدہ بچہ اسے كہا جاتا ہے جس كے متعلق يہ واضح نہ ہو كہ آيا وہ مؤنث ہے يا مذكر، وہ اسطرح كہ اس كا جو نام بھى ركھا جائے اس كے ليے صحيح ہو مثلا سلمۃ، قتادۃ، سعادۃ ھند، عتبۃ، ھبۃ اللہ. يعنى لڑكيوں والا نام ہو يا لڑكوں والا.
ماخوذ از: كتاب احكام الجنين فى الفقہ الاسلامى تاليف عمر بن محمد بن ابراہيم غانم.
واللہ اعلم .