"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
طلاق اس وقت واقع ہوتى ہے جب خاوند طلاق كے معانى كو سمجھتے ہوئے طلاق كے الفاظ بولے، اور اگر اس كے معانى كو نہ سمجھتا ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر غير عربى شخص نے اپنى بيوى كو كہا: تجھے طلاق " اور وہ اس كے معانى اور مفہوم كو سمجھتا ہى نہ ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ اس نے طلاق اختيار نہيں كى، تو مكرہ يعنى مجبور كردہ شخص كى طرح اس كى بھى طلاق واقع نہيں ہو گى...
اسى طرح اگر كسى شخص نے كلمہ كفر ادا كيا اور اسے اس كے معانى نہ آتے ہوں تو وہ اس سے كافر نہيں ہوگا " انتہى
ديكھيں: مغنى ابن قدامہ ( 10 / 373 ).
اور شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جو شخص طلاق كے معانى كى سمجھ نہ ركھتا ہو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى چاہے وہ مكلف ہى ہو "
فرض كريں اگر كوئى عجمى شخص طلاق كے معانى نہيں جانتا اور اس نے عربى زبان ميں طلاق كے الفاظ بول ديے اور وہ اس كے معانى اور مفہوم كو نہ سمجھتا ہو تو اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ وہ اس كے معانى كو ہى نہيں سمجھتا " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 16 ).
واللہ اعلم .