"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کون سی ایسی حالتیں ہیں جن میں کوئی شخص دوسرے کی نماز توڑ دیتا ہے؟ مثال کے طور پر امام کن حالتوں میں اپنے مقتدیوں کو پتہ بھی نہ لگنے دے اور ان کی نماز بھی باطل کر دے ؟
الحمد للہ.
مقتدیوں کی نماز کے امام کی نماز کے ساتھ منسلک ہونے کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں:
1- دونوں کی نماز میں بالکل کوئی ربط و تعلق نہیں، اور ہر آدمی الگ الگ اپنے لئے نماز پڑھتا ہے ۔امام شافعی کی اصل کے مطابق [اصل کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب نے کسی مسئلہ میں ایک اصول بنایا ہے تو اس مسئلہ کے متعلقہ ذیلی صورتیں اسی اصل پر مبنی ہوں گی ] غالب حکم یہی ہے ۔
2- مقتدی کی نماز امام کی نماز کے ساتھ مربوط اور منسلک ہوتی ہے اور اس کی نماز امام کی نماز کا مطلق طور پر جز اور اسکی فرع ہے؛ چنانچہ جو خلل امام کی نماز میں واقع ہوگا وہ مقتدی کی نماز میں بھی سرایت کر جائے گا ، یہ ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت ایسے ہی منقول ہے ۔
3- مقتدی کی نماز امام کی نماز سے ہی منسلک ہوتی ہے، لیکن مقتدی کی نماز میں نقص اس وقت واقع ہوگا جبکہ امام و مقتدی دونوں کا عذر نہ ہو، اگر کوئی شرعی عذر ہو تو پھر نقص واقع نہ ہوگا، چنانچہ جب امام یہ سمجھتا ہو کہ وہ با وضو ہے تو اس کا امامت میں اور مقتدی کا اقتدا میں عذر قابل قبول ہے، یہ امام مالک اور احمد وغیرہ کا قول ہے۔ اس مسئلہ میں منقول صحابہ کے اقوال سے بھی یہی مفہوم کشید ہوتا ہے، اور یہی معتدل موقف ہے ۔
"مجموع الفتاوی" از : شیخ الاسلام ابن تیمیہ (23/370-371)
چنانچہ صرف امام کی نماز کے باطل ہونے سے ہی مقتدی کی نماز کا بطلان لازم نہیں آئے گا؛ کیونکہ جب مقتدی نے نماز کی تمام شرائط، ارکان اور واجبات کو صحیح طور سے ادا کیا ہے تو اس کی نماز کے باطل ہونے کا حکم کسی صحیح دلیل سے ہی لگ سکتا ہے ؛ چنانچہ ہمارے اس موقف کی دلیل وہ روایت ہے جسے بخاری نے حدیث نمبر : (694)،اور احمد نے (8449)روایت کیا ہے اور یہ الفاظ احمد کے ہیں کہ: "ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وہ ائمہ تم کو نماز پڑھائیں گے، اگر صحیح پڑھائیں تو تم سب کی نماز صحیح ہے، اور اگر غلطی کریں تو تمہاری نمازصحیح ہے اور غلطی کا وبال انہی پر ہوگا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن منذر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ اگر امام غلطی کرے تو اس کا وبال اسی پر ہوگا نہ کہ مقتدیوں پر"
"مجموع الفتاوی"(23/372)
اور سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس مقتدی کو امام کے بے وضو ہونے اور پلید ہونے کے بارے میں علم نہیں ہے اسے معذور سمجھا جائے گا چنانچہ اس کی نماز درست ہوگی ، چاہے امام کو اپنے بے وضو ہونے یا جنبی ہونے کا علم ہو؛ کیونکہ ہر انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ان کا وبال بھی اسی پر ہوگا، ، چنانچہ مقتدی سے تو نماز کو فاسد اور باطل کرنے والا کوئی بھی فعل صادر نہیں ہوا ، تو اس کی نماز کے باطل ہونے کا حکم اس پر کیسے لگایا جاسکتا ہے ؟ درست بات یہ ہے کہ مقتدی کی نماز کسی بھی صورت میں امام کی نماز کے باطل ہونے سے باطل نہ ہوگی، حتی کہ اگر امام کی نماز دورانِ نماز میں باطل ہوئی اور وہ اس کو چھوڑ کر چلا گیا تو مقتدی اپنی نماز کو اکیلے جاری رکھے گا یا کوئی اور امام بن کر ان کو بقیہ نماز پڑھا دے۔ امام احمد کا یہ موقف بہت قوی ہے" انتہی
"الفتاوی السعدیہ "(7/120)۔(کامل مجموعے میں سے )
اس قول کے مطابق، جب امام کی نماز کسی وجہ سے باطل ہو جائے مثلاً بھول کر بے وضو نماز پڑھا دی یا حالت نماز میں بے وضو ہو گیا ،تو اس کا مقتدی کی نماز سے کوئی تعلق نہیں ہوگا لہذا مقتدی کی نماز باطل نہ ہوگی ۔
البتہ چند صورتیں ایسی ہیں جن میں امام کی نماز باطل ہونے سے مقتدی کی نماز بھی باطل ہو جاتی ہے، چنانچہ ان صورتوں میں سے چند درج ذیل ہیں:
- جب امام کی نماز کسی ایسے واضح اور ظاہری اسباب سے باطل ہو جو عام طور پر مقتدیوں پر مخفی نہیں رہتے، جیسا کہ امام قبلہ سے رخ پھیر لے، اس کا سترکھل جائے، یا جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت چھوڑ دے، یا تکبیر تحریمہ چھوڑ دے، اور مقتدی علم ہو جانے کے بعد بھی نماز میں امام کی پیروی جاری رکھیں ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب کوئی ایسی شرط رہ جائے جو امام پر لازم تھی، جیسا کہ ستر کا ڈھانپنا اور قبلہ رخ ہونا، تو یہ مقتدی کیلئے بھی معاف نہ ہوں گی ؛کیونکہ اس جیسی صورت عام طور پر مخفی نہیں رہتی ،البتہ حدث اور نجاست کا معاملہ یہ نہیں ہے"
"المغنی"(1/420)
- جب امام اور سترے کے درمیان میں سے کوئی ایسی چیز گزرے جس سے نماز منقطع ہو جاتی ہے جیسے عورت، گدھا اور کالا کتا، تو امام اور مقتدی دونوں کی نماز باطل ہو جائے گی، چنانچہ جب کوئی عورت امام اور سترے کے درمیان سے گزرے تو امام اور مقتدی سب کی نماز باطل ہو جائے گی ؛کیونکہ امام کا سترہ سب کے لئے ہے ؛جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگے تو اگر اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز ہوگی تو وہ اس کے لئے سترہ بن جائے گی، جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی طرح کوئی چیز نہ ہوگی تو گدھا، عورت اور سیاہ کتا اس کی نماز کو کاٹ دیں گے[جب اس کے سامنے سے گزریں گے]"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے (حدیث نمبر510)
نیز سوال نمبر (3404)کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا : کیا امام کی نماز باطل ہونے سے مقتدی کی نماز باطل ہو جائے گی؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"امام کی نماز باطل ہونے سے مقتدی کی نماز باطل نہ ہوگی؛ کیونکہ مقتدی کی نماز صحیح ہے اور نماز کی صحت کا باقی رہنا ہی اصل ہے، اور دلیلِ صحیح کے بغیر نماز کا باطل ہونا ممکن نہیں ہے، چنانچہ امام کی نماز تو دلیلِ صحیح کے تقاضے سے باطل ہوئی، لیکن مقتدی نماز میں اللہ کے حکم سے داخل ہوا ہے تو اللہ کے حکم کے بغیر اس کی نماز کا باطل ہونا ممکن نہیں ہے۔
ایک اصول ہے: "جو شخص کسی عبادت کو اسی طرح شروع کرتا ہے جیسے اللہ نے اسے حکم دیا تو ہم اس کی اس عبادت کو دلیل کے بغیر باطل قرار نہیں دے سکتے "
ہاں ایسی حالت اس سے مستثنی ہوگی جس میں امام مقتدی کے قائم مقام ہو جیسے سترہ کے معاملے میں، کیونکہ امام کا سترہ ہی مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے ،چنانچہ اگر کوئی عورت امام اور سترے کے درمیان سے گزرتی ہے تو امام اور مقتدی دونوں کی نماز باطل ہوگی؛ اس لیے کہ یہ سترہ مشترک تھا اسی لئے تو ہم مقتدی کو الگ سے اپنے لئے سترہ رکھنے کا حکم نہیں دیتے، بلکہ اگر سترہ رکھے گا تو غلو کرنے والا اور بدعتی شمار ہوگا "
"مجموع فتاوی ابن عثیمین"(12/372)
واللہ اعلم.