"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
پہلے سوال نمبر: (44039) میں ہے کہ اگر میت کچھ مال چھوڑ کر فوت ہو تو سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین اسی کے مال سے ہوگی، اور اگر مال نہ ہو تو جس کے ذمہ میت کا خرچہ فرض تھا (والد، بیٹا، خاوند وغیرہ) تو وہ اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات برداشت کریگا، اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو پھر بیت المال میں سے اخراجات ادا کیے جائیں گے، بصورت دیگر تمام مسلمان خود سے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کرینگے۔
چنانچہ میت کی تجہیز و تکفین کیلئے زکاۃ کی رقم صرف کرنا جائز نہیں ہے، چاہے میت غریب ہی کیوں نہ ہو۔
اس بارے میں بہوتی رحمہ اللہ "کشف القناع" (2/271) میں کہتے ہیں:
"زکاۃ کے مستحقین کی آٹھ اقسام ہیں، چنانچہ ان کے علاوہ کہیں اور زکاۃ خرچ کرنا
درست نہیں ہے، مثال کے طور پر مساجد کی تعمیر۔۔۔ مردوں کی تجہیز و تکفین ، اوقاف،
اور دیگر رفاہی امور۔۔۔" انتہی
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زکاۃ کی رقم مساجد کی تعمیر ، سٹرک بنانا، یا مردوں کی تجہیز و تکفین میں خرچ
کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے زکاۃ کے مصارف ذکر کرتے ہوئے "إنما"
کیساتھ انہیں مخصوص و معین کر دیا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ دیگر تمام مصارف کی نفی
ہو" انتہی
ماخوذ از: "کتاب الکافی"
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن قدامہ رحمہ اللہ کا استدلال بہت قوی اور صحیح ہے، اور مخالفین کا (وَفِي
سَبِيلِ اللهِ)
میں تمام نیکی کے کام شامل کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ یہاں "
سَبِيلِ اللهِ"
سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ کی راہ میں ہو ، تو یہ بات درج ذیل وجوہات کی بنا پر
غلط ہے:
پہلی بات: اللہ تعالی نے "
سَبِيلِ اللهِ
" کا ذکر تمام اشیاء کے درمیان میں فرمایا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اگر
اللہ تعالی "
سَبِيلِ اللهِ
" کا ذکر ابتدا میں فرماتے تو ہم کہتے کہ ایک ہی شے کو پہلےعام پھرخاص ذکر کیا ہے،
اور اگر آخر میں اس کا ذکر ہوتا تو ہم کہتے کہ اسی کو خاص کے بعد عام ذکر کیا ہے،
لیکن اللہ تعالی نے آٹھ چیزوں کے درمیان میں ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ "
سَبِيلِ اللهِ
" کوئی علیحدہ سےمتعین شے ہے،نہ کہ ہر شے کو شامل ہے، اور وہ شے جہاد ہے۔
دوسری بات: اگر ہم یہ کہیں کہ "
سَبِيلِ اللهِ
"سے مراد ہر نیکی کا کام ہے تو پھر ابتداء میں "إنما"
لا کر محصور و معین کرنے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہ جاتا ، چنانچہ صحیح بات یہی
ہے جو مؤلف نے ذکر کی ہے۔" انتہی
"شرح الکافی" از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ
واللہ اعلم.