"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
فروخت کیلئے تیار شدہ سامانِ تجارت اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے، چاہے یہ سامان زمین، عمارت، مصنوعات یا کسی بھی صورت میں ہو، بشرطیکہ جس مال [نقدی رقم]سے یہ سامان تیار ہوا ہے اس پر سال گزر چکا ہو، اس کی زکاۃ ادا کرنے کیلئے 2.5٪ ادا کیا جائے گا، نیز زکاۃ ادا کرتے وقت سامان تجارت کی موجودہ قیمت دیکھی جائے گی، قیمت خرید نہیں دیکھی جائے گی، چنانچہ اگر کسی نے ایک لاکھ میں زمین خریدی اور سال کے آخر میں زمین کا ریٹ پچاس ہزار رہ گیا تو زکاۃ پچاس ہزار میں ہوگی، ایک لاکھ میں نہیں۔
جو اوزار ، مشینری دوکان کا فرنیچر وغیرہ فروخت کیلئے نہیں ہیں اس پر زکاۃ بھی نہیں ہے۔
اس بنا پر جو مصنوعات گزشتہ سالوں میں آپ کے پروجیکٹ پر تیار کی جاتی تھیں ان کی زکاۃ آپ ادا کرینگے، اس کیلئے پہلے سال کے اختتام پر جتنی مالیت کی مصنوعات تیار کی گئیں انکا تخمینہ لگائیں، پھر دوسرے سال کے اختتام تک تیار کی گئی مصنوعات کا تخمینہ لگائیں، خیال رہے کہ نصاب پورا ہونے کے بعد مصنوعات کی قیمت کم یا زیادہ ہونے سے فرق نہیں پڑیگا، اسی طرح آپ اپنے پاس موجود نقدی رقم کو بھی زکاۃ کا حساب لگانے کیلئے شامل کریں۔
مندرجہ بالا سطور میں ہم نے جو اشارہ کیا ہےکہ دوکان کے فرنیچر وغیرہ میں زکاۃ نہیں ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے پروجیکٹ میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی، کیونکہ انہیں فروخت کرنے کیلئے نہیں رکھا جاتا۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (74987)
دوم:
زکاۃ کی رقوم کو سرمایہ کاری میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ زکاۃ کی رقم فوری طور پر زکاۃ کے مستحق افراد میں تقسیم کرنا واجب ہوتا ہے، جیسے کہ پہلے بھی سوال نمبر: (111774) کے جواب میں یہ بات تفصیل سے گزر چکی ہے۔
اس لئے اگر کسی شخص نے زکاۃ کی رقم کسی پروجیکٹ میں لگائی اور خسارہ ہو گیا ، یا رقم ضائع ہو گئی تو یہ شخص اس کا مکمل ضامن ہوگا، چاہے اس شخص نے کسی کے فتوے پر ایسا کیا ہو یا اپنی مرضی سے ، اس کے ضامن بننے کی دو وجوہات ہیں:
1- جس شخص پر زکاۃ واجب ہو جائے اور اسے زکاۃ ادا کرنے کا موقع بھی ملے لیکن اس کا مال تباہ ہو جائے -چاہے مال تباہ ہونے میں اس کا کوئی قصور نہ بھی ہو- اسے ہر حال میں زکاۃ دینا ہوگی، یہی موقف جمہور فقہائے کرام کا ہے۔
2- زکاۃ کا مال سرمایہ کاری میں لگانا منع ہے، اس موقف کے مطابق زکاۃ کا مال سرمایہ کاری میں لگانے والا زیادتی کر رہا ہے، اور اسے تلف کرنے کا براہ راست سبب بن رہا ہے، اس لئے اسے اس مال کا مکمل ضامن بننا پڑے گا، یہ اس صورت میں ہے کہ زکاۃ ادا کرنے والا خود زکاۃ کو سرمایہ کاری میں لگائے۔
اور اگر زکاۃ کی رقم سے سرمایہ کاری کرنیوالا اصل مالک کا نمائندہ ہو یا نائب ہو اور یہ مال تلف ہو جائے، تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں:
1- زکاۃ کی رقم کو سرمایہ کاری کیلئے اصل مالک کے کہنے پر استعمال کیا ہو، تو اس صورت میں اصل مالک ہی اس کا ضامن ہوگا، بالکل اسی طرح جیسے اس نے خود اس زکاۃ کو سرمایہ کاری میں لگایا اور پھر مال تلف ہوگیا۔
2- مالک نے اپنے نمائندے کو زکاۃ مستحقین میں تقسیم کرنے کیلئے دی ، لیکن نمائندے نے اپنی مرضی سے اسے سرمایہ کاری میں لگا دیا تو ایسی صورت میں یہ نمائندہ ضامن ہوگا، کیونکہ اس نےاپنی ذمہ داری میں کوتاہی برتی ہے۔
اس مسئلے کی تمام تر تفصیلات " استثمار أموال الزكاة " از پروفیسر صالح بن محمد الفوزان صفحہ: 187-196 میں دیکھیں۔
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد : اپنی زکاۃ کا مال سرمایہ کاری میں لگانے والا شخص زکاۃ کا مال تلف ہونے پر مکمل ضامن ہوگا، اور اسے زکاۃ کی رقم کے مساوی رقم زکاۃ کے مستحقین میں تقسیم کرنی ہوگی، اور اگر اس کے پاس اتنی رقم نہ ہو تو یہ اس کے ذمہ قرض ہی رہے گا، جو کہ ادا کرنے پر ہی ختم ہوگا۔
واللہ اعلم.