"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میرے پاس بیع المرابحہ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات ہیں، اور آپ سے امید ہے کہ آپ ہمیں بیع المرابحہ کی اتنی تفصیل ضرور بیان کریں جس سے ہم حرام لین دین سے بچ سکیں۔
میں ایک کمپنی میں ملازم ہوں، اور ہمارے ہاں مرابحہ کا سسٹم موجو دہے، میں گھر تعمیر کرنا چاہتا ہوں، اور میں نے مرابحہ کے طور پر قرض وصول کرنے کے لیے درخواست دے رکھی ہے، تو اس حوالے سے میرے کچھ سوالات ہیں:
1-کیا کمپنی کے ساتھ تعمیراتی سامان کے تاجر کا معاہدہ ہو جانا کافی ہے یا اس سامان کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے منتقل کرنا بھی ضروری ہے؟
2- ہمارے ہاں تعمیراتی سامان بہت مہنگا ہے، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ جب مجھے اپنی کمپنی کی طرف سے قرض مل جائے تو میں متعلقہ تاجر سے کہوں کہ مارکیٹ میں قیمت ڈاؤن ہونے تک پیسے اپنے پاس رکھے ، اور میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تعمیراتی کام اس وقت شروع کروں جب میں کمپنی سے چھٹی لے لوں۔
الحمد للہ.
اول:
مرابحہ کے تحت خرید و فروخت کی شکل یہ ہوتی ہے کہ: آپ کسی کمپنی یا بینک سے گاڑی یا تعمیراتی سامان وغیرہ کی صورت میں کوئی مخصوص چیز خریدنے کا کہتے ہیں اور اس سے وعدہ کرتے ہیں کہ جب وہ کمپنی مخصوص چیز خرید لے گی اور اس کی مالک بن جائے گی تو آپ اس سے وہ چیز مخصوص منافع پر خرید لیں گے۔ مرابحہ میں قرض نہیں ہوتا، مرابحہ کے عمل کو قرض قرار دینا غلط ہے، ہاں اگر مرابحہ بذات خود صحیح نہ ہو، اور کمپنی اپنے لیے وہ چیز خرید ہی نہ کرے بلکہ صارف کو پیسے دے دے یا اس کی مالی معاونت کر دے تو یہ قرض ہے، مرابحہ سرے سے نہیں ہے، اس صورت میں یہ سودی حرام قرض ہے؛ کیونکہ کمپنی صارف سے قرض مع اضافہ واپس کرنے کا مطالبہ کرے گی۔
جبکہ صحیح مرابحہ کے لیے درج ذیل اقدامات ہونا ضروری ہے:
جب مرابحہ میں یہ تمام شرائط پائی جائیں گے تو مرابحہ صحیح ہو گا۔
کمپنی پر لازم ہے کہ سامان خرید کر تاجر کی دکان سے اٹھا کر اپنے قبضے میں لے لے، اس کی دلیل مسند احمد: (15399 )اور نسائی: (4613) میں سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تجارتی لین دین کرتا ہوں تو میرے لیے ان میں سے کون سا طریقہ حلال ہے اور کون سا حرام ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب آپ کوئی چیز خریدیں تو اس وقت تک اسے آگے فروخت نہ کریں جب تک اسے اپنے قبضے میں نہ لے لیں۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح الجامع: (342) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح دارقطنی اور ابو داود: (3499) میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی جگہ پر سامان فروخت کرنا منع فرمایا ہے جہاں اسے خریدا گیا ہے، یہاں تک کہ تاجر اسے اپنے گھروں میں منتقل نہ کر لیں۔) اس حدیث کو ابن حبان رحمہ اللہ ، امام حاکم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو اناج خریدے تو اسے اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک اسے مکمل قبضے میں نہ لے لے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2132) اور مسلم : (1525) نے روایت کیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: (میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر چیز اسی طرح ہے۔) یعنی اناج اور دیگر چیزوں میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (36408 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
آپ کے اور تعمیراتی سامان کے تاجر کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے آپ تاجر سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ قیمت کم ہونے تک رقم محفوظ رکھے؛ کیونکہ صحیح مرابحہ کے لیے جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ: کمپنی تاجر سے تعمیراتی سامان خریدے، جب کمپنی کے پاس یہ تعمیراتی سامان آ جائے اور اسے اپنے قبضے میں لے لے، تو اب آپ کمپنی سے خریداری کے لیے کوشش کریں گے۔
لہذا اگر تعمیراتی سامان کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں تو آپ قیمتیں ڈاؤن ہونے تک انتظار کریں اور پھر آپ عقدِ مرابحہ کے لیے درخواست دیں۔
واللہ اعلم