"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے نيا نيا اسلام قبول كيا اور اسى طرح نيا اسلام قبول كرنے والى عورت سے شادى كى ہے، ہمارى شادى كوتين ماہ ہوئے ہيں، اسلام قبول كرنے سے قبل بھى ہم اكٹھے تھے، بعض اوقات ہمارے درميان اختلافات اس قدر ہو جاتے ہيں كہ شدت غضب كى بنا پر ہم ايسے كلمات كہہ جاتے ہيں جن كا ارادہ تك نہيں ہوتا.
بعض اوقات شدت غضب ميں اپنى بيوى كو طلاق كے الفاظ بھى كہتا ليكن ميرا ارادہ نہيں ہوتا تھا، بعد ميں مجھے علم ہوا كہ اگر يہ تين بار كہہ ديا جائے تو طلاق ہو جاتى ہے مجھے يہ علم ہے كہ اگر تين بار طلاق كے الفاظ بولے جائيں تو يہ ايك طلاق شمار ہوتى ہے.
ليكن لوگ كہتے ہيں كہ ميں اپنى بيوى كو چھوڑ دوں اور وہ كسى اور شخص سے شادى كرے اور وہ شخص اس سے جماع كر كے اسےطلاق دے يا پھر مر جائے تو ہم دوبارہ شادى كر سكتے ہيں، ليكن ہم اسے غير اسلامى فعل سمجھتے ہيں برائے مہربانى آپ اس مسئلہ كى كتاب و سنت كى روشنى ميں وضاحت كريں.
ميں نے سورۃ الطلاق ميں پڑھا ہے كہ طلاق ميں دو گواہ ہونے چاہييں اور رجوع ميں بھى، اور ابو داود كى حديث بھى اس كى تائيد كرتى ہے ؟
ميں نے جتنى بار بھى طلاق كے الفاظ كہے ميرى طلاق مراد نہ تھى اور پھر ميں غصہ كى حالت ميں تھا ميں حلال طريقہ سے ايك مسلمان خاندان بنا كر زندگى بسركرنا چاہتا ہوں. اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
الحمد للہ.
اول:
حالت غضب ميں دى گئى طلاق:
اگر طلاق دينے والے شخص كا غصہ اور غضب اس حد تك پہنچ جائے كہ اسے سمجھ ہى نہ آئے وہ كہہ كيا رہا ہے يا پھر غصہ اتنا شديد ہو جو اسے طلاق دينے پر ابھارے كہ اگر غصہ نہ ہوتا تو وہ طلاق نہ ديتا تو اس حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہو گى، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 45174 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
ايك ہى مجلس ميں تين طلاق كے متعلق فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن راجح يہى ہے كہ اس سے ايك طلاق واقع ہوتى ہے، چاہے ايك ہى كلمہ ميں تين طلاق دى جائے مثلا تجھے تين طلاق، يا پھر تين عليحدہ عليحدہ كلمات مثلا تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق كے الفاظ بولے جائيں اور اسى طرح اگر كوئى شخص طلاق دے اور دوران عدت رجوع كرنے سے قبل ہى دوبارہ طلاق دے تو صرف ايك ہى طلاق واقع ہوگى؛ كيونكہ طلاق تو عقد نكاح يا پھر رجوع كرنے كے بعد ہوتى ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 96194 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
سوم:
نہ تو طلاق ميں گواہ بنانےكى شرط ہے اور نہ ہى گواہ بنانا واجب اور ضرورى، اس ليے جس شخص نے بھى طلاق كے الفاظ بولے اس كى طلاق واقع ہو جائيگى، چاہے بيوى پاس موجود نہ بھى ہو، يا پھر اس كے پاس كوئى اور شخص نہ بھى ہو اور وہ اكيلا ہى طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائيگى.
اور اسى طرح اگر كسى شخص نے خط يا كاغذ ميں طلاق دينے كى نيت سے طلاق لكھى تو طلاق واقع ہو جائيگى.
طلاق ميں گواہ بنانے كى عدم شرط پر اجماع بيان كيا گيا ہے.
امام شوكانى رحمہ اللہ رجوع ميں گواہ بنانے كے مسئلہ پر كہتے ہيں:
" گواہ بنانے كے عدم وجوب كے دلائل ميں يہ شامل ہے كہ: طلاق ميں گواہ بنانے كى عدم شرط پر اجماع ثابت ہے، جيسا كہ امام الموزعى نے " تيسير البيان " ميں بيان كيا ہے، اور رجوع اس كا قرينہ ہے، اس ليے اس ميں بھى گواہ بنانا واجب نہيں جس طرح اس ميں واجب نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: نيل الاوطار ( 6 / 300 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے طلاق اور رجوع ميں گواہ بنانے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اور جب وہ ( عورتيں ) اپنى عدت كو پہنچ جائيں يا تو انہيں اچھے طريقہ سے روك لو يا پھر اچھے طريقہ سے چھوڑ دو، اور اپنے ميں عدل و انصاف والوں كوگواہ بناؤ الطلاق ( 2 ).
جمہور فقھاء كرام كے ہاں يہاں حكم مندوب اور مستحب كے معنى ميں ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 11798 ) كے جواب مطالعہ كريں.
ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں عمران بن حصين سے مروى ہے كہ:
" عمران بن حصين سے ايسے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا جس نے اپنى بيوى كو طلاق دے دى اور پھر اس نے اپنى بيوى سے ہم بسترى بھى كر لى ليكن اس نے طلاق اور رجوع كرنے پر كوئى گواہ نہيں بنائے تھے.
تو عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ نےفرمايا:
" تو نے طلاق بھى سنت طريقہ كے بغير دى اور رجوع بھى سنت كے طريقہ كےبغير كيا، تم طلاق پر بھى گواہ بناؤ اور رجوع كرنے پر بھى گواہ بناؤ، اور آئندہ ايسا مت كرنا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2188 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نےصحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور اسے گواہ بنانے كے مستحب ہونے پر بھى محول كيا جائيگا.
عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ كا قول: " اسے طلاق دينے اور اس سے رجوع كرنے پر گواہ بناؤ اور آئندہ ايسا مت كرنا "
اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ طلاق دينے اور رجوع كر لينے كے كچھ عرصہ بعد بھى گواہ بنائے جا سكتے ہيں، اسى ليے انہوں نےاس شخص كوحكم ديا كہ وہ اس پر گواہ بنائے حالانكہ يہ دونوں كام يعنى طلاق اور رجوع تو پہلے ہى ہو چكے تھے.
شيخ عبد المحسن عباد حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ اس كى دليل ہے كہ گواہ بنانے كا تدارك كيا جا سكتا ہے طلاق اور رجوع كے وقت ہى گواہ بنانا لازم نہيں، بلكہ طلاق دينے كے بعد بھى گواہ بنائے جا سكتے ہيں، اور پھر رجوع كر لينے كے بعد گواہ بنانا صحيح ہے.
اور جماع و ہم بسترى كرنے سے بھى رجوع ہو سكتا ہے كيونكہ دوران عدت آدمى كا اپنى مطلقہ بيوى سے ہم بسترى كرنا اس سے رجوع كہلاتا ہے، اور رجوع الفاظ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے، ليكن گواہ بنانا مطلوب ہے كہ اس پر گواہ بنائے جائيں تا كہ رجوع كرنے سے طلاق ختم ہونے كا علم ہو جائے، اور اسى طرح طلاق ميں بھى " انتہى
ماخوذ از: شرح سنن ابو داود.
حاصل يہ ہوا كہ: شديد غصہ كى حالت ميں آپ كى طلاق واقع نہيں ہوئى، اور ايك ہى بار تين طلاق دينے سے ايك طلاق واقع ہوگى، اور طلاق كے ليے گواہ بنانا شرط نہيں اور نہ ہى رجوع ميں گواہ بنانا شرط ہے.
اس كے ساتھ ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ طلاق كے الفاظ ادا كرنے سے بالكل اجتناب اور احتراز كريں.
واللہ اعلم .