"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سوال: میری پھوپھی مہلک بیماری کی وجہ سے فوت ہو گئی ہیں، اور ان کی بیماری کے دوران میں نے انہیں اپنی زکاۃ میں سے 5000 دیے تھے، کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے مجھے پیسے ختم ہو جانے کا اشارہ کیا تو میں نے انہیں 2000 زکاۃ کی مد سے مزید دے دیے، میری پھوپھی بیماری کی وجہ سے پیسے خود نہیں رکھتی تھی، بلکہ اپنی بیٹیوں کو دے دیتی تھی، پھر وہی علاج کے مصارف میں اس رقم کو خرچ کرتی تھیں، پھوپھی کی وفات کے بعد مجھے اپنی کزنوں سے پتا چلا کہ میری دی ہوئی رقم میں سے کافی رقم بچی ہوئی ہے، اور وہ اس رقم کو صدقہ کے طور پر دینا چاہتی ہیں، میں نے ان سے اس رقم کا مطالبہ کیا تو وہ 5000 مصری پاؤنڈ تھے، میں نے وہ رقم لیکر اپنے پاس زکاۃ فنڈ میں جمع کر لی۔
یہاں سوال یہ ہے کہ: کیا یہ رقم وراثت میں شمار ہوگی؟
الحمد للہ.
اول:
اگر مریض کے پاس اپنے علاج کیلئے رقم نہ ہو تو اسے زکاۃ کی رقم دی جا سکتی ہے۔
مزید کیلئے دیکھیں: سوال نمبر: (105328)
دوم:
جس شخص نے کسی کو فقیر یا محتاج سمجھ کر زکاۃ دی، اور بعد میں اسے معلوم ہوا کہ وہ تو مالدار ہے، یا پھر اسے تعاون کی ضرورت نہیں ہے، یا فقیر نے دی ہوئی زکاۃ میں سے کچھ رقم بچت کر کے محفوظ کر لی ہے تو زکاۃ دینے والے کی زکاۃ ادا ہو چکی ہے اور وہ بری الذمہ ہے، نیز اس شخص سے زکاۃ کی رقم واپس نہیں لے سکتا۔
"زاد المستقنع" میں ہے کہ:
"اگر زکاۃ کی رقم کسی کو زکاۃ کا مستحق سمجھ کر دی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ زکاۃ کا مستحق ہی نہیں تھا، یا اس کے برعکس معاملہ ہو تو زکاۃ دوبارہ ادا کرنی ہوگی، صرف ایک صورت ایسی ہے جس میں زکاۃ دوبارہ ادا نہیں کرنے پڑے گی اور وہ ہے کہ کسی غنی شخص کو فقیر سمجھ لیا تو اب زکاۃ دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں ہے"
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی شرح میں کہتے ہیں:
"مثال کے طور پر: ایک آدمی میرے پاس سوالی بن کر آیا اور اس کی ظاہری شکل و صورت بھی فقیروں والی تھی، تو میں اسے زکاۃ میں سے کچھ دے دیا، کچھ ہی دیر کے بعد ایک شخص نے آکر مجھ پوچھا : "تم نے اسے کیا دیا ہے؟" میں نے کہا: "زکاۃ دی ہے" تو اس نے کہا کہ: "یہ تم سے بھی مالدار ہے!" تو ایسی صورت میں زکاۃ دوبارہ نہیں دینی پڑے گی؛ کیونکہ ہم صرف ظاہر پر ہی حکم لگا سکتے ہیں، یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو مدارس اور مساجد میں مانگتے پھرتے ہیں، کہ ہم انہیں صرف ظاہری حالت دیکھ کر زکاۃ دیتے ہیں۔
اس کی دلیل وہ قصہ ہے جس میں رات کے وقت ایک آدمی اپنی زکاۃ لیکر گیا اور کسی کو زکاۃ کا مال دے دیا، تو صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ :
"رات کو ایک مالدار شخص کو زکاۃ دے دی گئی ہے!"
زکاۃ دینے والے نے اظہار نا پسندیدگی کرتے ہوئے کہا: "مالدار کو زکاۃ دے دی! الحمدللہ!
دوسری بار پھر زکاۃ لیکر نکلا تو ایک بازاری عورت کو زکاۃ دے دی، اور لوگ باتیں کرنے لگے:
"آج رات بازاری عورت کو کسی نے زکاۃ دی ہے"
تو صدقہ کرنے والے نے پھر ناراضگی کے انداز میں کہا: "الحمد للہ! پہلے مالدار کو اور اب بازاری عورت کو زکاۃ دے بیٹھا ہوں!"
اب تیسری بار بھی زکاۃ لیکر نکلا اور کسی چور کے ہاتھ میں تھما دی، اب پھر لوگ باتیں کرنے لگے: آج تو چور کو زکاۃ دے دی گئی ہے!
اس پر بھی اس شخص نے وہی کہا: "الحمد للہ! پہلے مالدار کو ، پھر بازاری عورت کو اور اب چور کو زکاۃ تھما آیا ہوں!"
اسے کہا گیا: تمہارا صدقہ قبول کر لیا گیا ہے؛ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ مالدار کچھ شرم کھائے اور وہ بھی زکاۃ ادا کرنے لگے!
اور بازاری عورت امید ہے کہ وہ زنا سے باز آ جائے!
جبکہ چور ہو سکتا ہے کہ چوری نہ کرے اور توبہ کر لے!
اس طرح اس کی زکاۃ اللہ کے ہاں مفید اور مقبول ٹھہری، اور جن کے ہاتھ میں گئی ہے انہیں بھی اس کا فائدہ ہوا، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر زکاۃ کسی مالدار کو فقیر سمجھ کر دی جائے اور بعد میں حقیقت معلوم ہو تو وہ ادا ہو جاتی ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ :
غنی اور فقیر والے مصرف کے علاوہ بھی تفتیش و تمحیص کے بعد کسی کو زکاۃ کا مستحق سمجھ کر زکاۃ دے دے، اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ زکاۃ کا مستحق نہیں تھا، تب بھی زکاۃ ادا ہو جائے گی، یعنی ان کے ہاں یہ حکم عام ہے، صرف غنی اور فقیر والے مسئلے کیساتھ خاص نہیں ہے؛ کیونکہ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی اور فرمانِ باری تعالی ہے کہ:
( لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا )
ترجمہ: اللہ تعالی کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں ٹھہراتا[البقرة:286]
اور ویسے بھی عبادات میں اعتبار مکلف کی نیت پر کیا جاتا ہے، جبکہ معاملات میں حقائق پر اعتماد کیا جاتا ہے، اور یہ بات ایسے شخص کو کہنا مشکل ہے کہ : تمہاری زکاۃ قبول نہیں ہوئی، حالانکہ اس نے پوری کوشش بھی ہے اور کوشش کرنے والے کو چاہے غلطی پر ہی کیوں نہ ہو ایک ثواب تو ضرور ملتا ہے، اور اگر کوشش کرنے پر کام بھی درست ہو جائے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔
یہ موقف حق کے زیادہ قریب لگتا ہے، کیونکہ اس شخص نے اپنے گمان اور چھان بین کے بعد یہی سمجھا کہ وہ زکاۃ کا مستحق ہے تو اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی؛ کیونکہ جب یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ کسی مالدار کو غریب سمجھ کر دی جانے والی زکاۃ ادا ہو جاتی ہے تو اسی طرح قیاس کرتے ہوئے دیگر مصارف میں بھی زکاۃ ادا ہو جائے گی" انتہی
"الشرح الممتع" (6/ 264)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ الحمد للہ! آپکی زکاۃ ادا ہو گئی ہے، اور آپ اپنی کزنوں سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
سوم:
محتاج یا محتاج لوگوں کی دیکھ بھال کرنے والے کیلئے اپنی ضرورت سے زیادہ مال لینے کی اجازت نہیں ہے، بشرطیکہ اسے معلوم ہو کہ یہ زکاۃ کا مال ہے لہذا ایسی صورت میں وہ زکاۃ وصول ہی نہ کرے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے: (مالدار اور صحت مند کمانے کی صلاحیت رکھنے والے کیلئے اس میں کوئی حصہ نہیں ہے)
ابو داود : (1391) نسائی: (2551) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے " صحیح سنن ابو داود " میں اسے صحیح کہا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے: (صدقہ کسی غنی اور تندرست و توانا کیلئے حلال نہیں ہے)
ابو داود : (1392) ، ترمذی: (589) ، نسائی: (2550) اور ابن ماجہ: (1829) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے " صحیح سنن نسائی " میں صحیح کہا ہے۔
اسی طرح " مطالب اولی النہى " (2/ 259) میں ہے کہ:
"اور اگر زکاۃ کسی غیر مستحق کو لا علمی کی بنا پر دی جا رہی ہو تو اسے چاہیے کہ وصول کرنے سے انکار کر دے، یہ کام اس کیلئے لازمی اور ضروری ہے" انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایک بیوہ عورت اپنے سوال میں یہ کہتی ہے کہ : "مجھے جو صدقہ اور زکاۃ کا مال ملتا ہے اس میں سے کچھ مال میرے پاس بچ جاتا ہے، اور اس پر ایک سال گزر جاتا ہے تو کیا اس پر زکاۃ واجب ہے، اور اگر اس پر زکاۃ واجب ہے تو میں کیسے ادا کروں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
" مذکورہ عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ زکاۃ لے، اور جو مال اس کے پاس باقی ہے اور وہ نصاب کی مقدار کو پہنچتا ہے، اور اس پر سال گزر چکا ہے، تو اسے اس مال کی زکاۃ ادا کرنی چاہیے، اور زکاۃ کی مقدار چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد 2.5% ہے۔" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة "دوسرا ایڈیشن (8/ 381)
اور اب آپ کی پھوپھی فوت ہو چکی ہے اور بقیہ مال ان کی بیٹیوں کے پاس ہے، اگر انہیں یہ معلوم تھا کہ ان کی والدہ زکاۃ کی مستحق نہیں تھی، اور اس نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ زکاۃ کا مال ہے پھر بھی اپنی ضرورت سے زیادہ زکاۃ کا مال لیا ، تو ان بیٹیوں کیلئے محتاط اور بری الذمہ ہونے کیلئے یہی بہتر ہے کہ اس مال کو فقراء و مساکین میں تقسیم کر دیں۔
اور اگر انہوں نے اس مال کو ترکہ میں شامل کر کے آپس میں تقسیم بھی کر لیا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا مال جس کو حاصل کرنے کا طریقہ کار غلط تھا یہ صرف حرام کمانے والے پر حرام ہوتا ہے، چنانچہ راجح موقف کے مطابق اگر وہ فوت ہو جائے تو ورثاء اسے آپس میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
اور اگر ان بچیوں کی والدہ کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ مال زکاۃ کا ہے، یا اسے اس بات کا علم بھی تھا لیکن اپنے اندازے سے اس نے ضرورت کے مطابق ہی لیا تھا، یا اسے امید تھی کہ مستقبل میں اسے ضرورت پڑے گی، لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اس میں سے بچ گیا تو پھر اس خاتون پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور یہ مال اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
واللہ اعلم.