"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
یہاں برطانیہ میں بہت سے طلبہ کام کرتے ہیں ؛ تا کہ وہ [کچھ کما کر ]حرام سے بچنے کے لیے شادی کر لیں ، اس متعلق میں نے دو احادیث پڑھی ہیں اور مجھے وہ باہمی متعارض لگتی ہیں۔
پہلی یہ ہے کہ: (نوجوانو! جس کے پاس نکاح کی ضروریات کی استطاعت ہے تو وہ شادی کر لے)
دوسری یہ ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک غریب آدمی کی ایک عورت سے شادی کر دی) تو پہلی حدیث میں مجھے جو سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ مرد مالی طور پر مستحکم ہونا چاہیے تا کہ اپنی بیوی کے اخراجات اٹھا سکے، اور دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک غریب آدمی کی شادی کر دی۔ تو کیا دونوں حدیثوں میں تعارض ہے یا مجھے سمجھنے میں غلطی لگی ہے؟
الحمد للہ.
پہلی حدیث تو صحیح بخاری: (5066) اور مسلم: (1400) میں ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نوجوانو! جس کے پاس نکاح کی ضروریات کی استطاعت ہے تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی نظریں جھکانے اور شرمگاہ کو تحفظ دینے کا قوی ذریعہ ، اور جو استطاعت نہ رکھے تو وہ روزوں کی پابندی کرے؛ کیونکہ روزے شدت شہوت کو توڑ دیتے ہیں)"
جبکہ دوسری حدیث بھی صحیح بخاری: (5030) اور مسلم: (1425) میں ہے کہ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: "اللہ کے رسول! میں اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرنے آئی ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی جانب اوپر سے نیچے دیکھا پھر اپنا سر جھکا دیا، تو جب خاتون نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اٹھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس میں چاہت نہیں ہے تو پھر میری شادی اس سے کر دیجیے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے پاس [حق مہر کے لیے ]کچھ ہے؟) تو اس نے کہا: "نہیں اللہ کے رسول میرے پاس کچھ نہیں ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ گھر جا کر دیکھو کوئی چیز مل جائے) تو وہ آدمی چلا گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا: "نہیں اللہ کے رسول! مجھے کچھ نہیں ملا" آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ جا کر دیکھو چاہے کوئی لوہے کی انگوٹھی ہی ہو) تو وہ آدمی پھر جا کر واپس آ گیا اور کہنے لگا: " نہیں اللہ کے رسول! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ میری یہ لنگی ہے-حدیث کے راوی سہل کہتے ہیں ان کے پاس اوپر والی چادر نہیں تھی اور انہوں نے کہا اس میں سے آدھی اسے دیے دیتا ہوں" تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اپنی لنگی سے کیا کرو گے، اگر تم پہنو گے تو اس کے تن پر کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ پہنے گی تو تمہارے تن پر کچھ نہیں ہو گا) یہ سن کر آدمی کافی دیر تک بیٹھا رہا ، پھر وہ کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دیکھا کہ وہ جا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلانے کا حکم دیا ، جب وہ قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے پاس قرآن کتنا ہے؟) تو وہ شخص سورتیں گنوانے لگا کہ فلاں فلاں سورتیں ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا یہ تمام سورتیں زبانی پڑھتے ہو؟) تو اس نے کہا: جی ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس سے تمہیں یاد قرآن کے بدلے میں کر دیا ہے)
یہ دونوں حدیثیں آپس میں متناقض نہیں ہیں، بلکہ ہر حدیث اپنے خاص سیاق اور تناظر میں آئی ہے؛ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث تمام نوجوانوں اور دیگر شادی کی رغبت رکھنے والوں کے کیلیے عمومی خطاب ہے اور اس خطاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شادی کے لیے اخراجات کی استطاعت لازمی ہیں تا کہ خاوند اپنے کندھوں پر نفقہ، لباس اور رہائش کی صورت میں پڑنے والی ذمہ داری کو اچھے انداز سے نبھا سکے۔
حدیث کے عربی الفاظ میں لفظ: "الباءة" سے مراد شادی کی ضروریات ہیں، تو صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ شادی محض ایک بندھن نہیں ہے کہ حلال طریقے سے اپنی شہوت پوری کی جائے اور بس ، بلکہ شادی ایک ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کا بوجھ مردوں کی عورتوں پر سرپرستی کی صورت میں ہوتا ہے۔
"نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص نکاح کرنے سے عاجز ہو تو وہ روزے رکھے؛ کیونکہ روزہ شہوت کم کر دیتا ہے اور شیطان کی چالوں کو کم کرتا ہے، لہذا روزہ بھی عفت اور آنکھیں جھکا کر رکھنے کے اسباب میں شامل ہے"
مجموع فتاوى ابن باز" (3 /329)
جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (جس کے پاس نکاح کی ضروریات کی استطاعت ہے تو وہ شادی کر لے) یعنی جس شخص کے پاس شادی کی ضروریات اور اخراجات پوری کرنے کی استطاعت ہو تو وہ فوری شادی کر لے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"شادی کے اخراجات اٹھانے اور ازدواجی حقوق ادا کرنے کی استطاعت رکھنے والے شخص کے لیے فوری شادی کرنا سنت ہے " انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (18 /6)
مزید کے لیے سوال نمبر: (9262) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
جبکہ دوسری حدیث میں کسی خاص شخص کا معاملہ ہے کہ ایک غریب شخص نے شادی اور عفت کا ذریعہ اختیار کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کی شادی ایک ایسی خاتون سے فرما دی جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر پیش کرنے کے لیے آئی تھی۔ تو اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر خاوند دین دار ، اللہ تعالی کے بارے میں صحیح عقیدہ اور نظریہ رکھتا ہو اور عورت کی صورت حال بھی ایسی ہی ہو تو محض غربت شادی کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی، کیونکہ ایسی صورت میں اللہ تعالی کے اس فرمان کو مد نظر رکھنا ہو گا:
(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)
ترجمہ: تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالی کشادگی والا علم والا ہے۔ [النور:32]
چنانچہ اللہ تعالی پر مکمل توکل، عفت کی جستجو اور اللہ تعالی سے فضل کی امید اور طلب کے ساتھ امید ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالی اپنے فضل سے غنی فرما دے اور اپنی طرف سے ڈھیروں رزق عطا فرمائے۔
جیسے کہ ترمذی: (1655) میں ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن بھی قرار دیا ہے کہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ تعالی پر حق ہے: مجاہد فی سبیل اللہ، مکاتب [آزادی کا خواہاں]غلام جو اپنی قیمت ادا کرنا چاہتا ہے، اور نکاح کرنے والا شخص جو عفت چاہتا ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر عنوان لکھتے ہوئے کہا ہے: "باب ہے تنگ دست کی شادی کے متعلق؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔"
حافظ ابن حجر اس کے تحت لکھتے ہیں کہ: "(إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ یہ در حقیقت عنوان کا سبب اور علت ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اگر ابھی فی الوقت مال میسر نہیں ہے تو یہ شادی کے لیے مانع نہیں؛ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ بعد میں انہیں دولت مل جائے" ختم شد
علی بن ابو طلحہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "اللہ تعالی نے جوانوں کو شادی کی ترغیب دلائی اور آزاد و غلام سب کو شادی کا حکم دیا اور پھر شادی پر انہیں دولت مند کرنے کا وعدہ بھی دیا، اور فرمایا: (إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ۔"
ایسے ہی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "نکاح کے ذریعے دولت تلاش کرو"
"تفسیر ابن كثیر" (6 /51)
اس بارے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں غیر شادی شدہ نیک اور صالح مرد و خواتین کی شادی کرنے کا حکم دیا ہے، اور پھر یہ خبر دی ہے جبکہ اللہ کی خبریں سچی ہوتی ہیں کہ شادی غریب لوگوں پر اللہ کے فضل کا باعث ہے، اللہ تعالی نے خبر اس لیے دی ہے کہ خاوند اور لڑکی کے سرپرست مطمئن رہیں کہ غربت کی وجہ سے شادی نہیں روکنی چاہیے، بلکہ یہ تو رزق اور تونگری کے اسباب میں سے ہے۔" ختم شد
"فتاوى إسلامية" (3 /213)
اس لیے شادی کی استطاعت رکھنے والے شخص کو شادی کی ترغیب دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ استطاعت نہ رکھنے والے کو شادی سے منع کر دیا گیا ہے، اور عدم ممانعت اس وقت مزید پختہ ہو گی جب غریب شخص کا برائی میں پڑنے کا خدشہ ہو۔
پھر شادی کی استطاعت نہ رکھنے والے شخص کو روزوں کا مشورہ اس لئے ہے تا کہ اس کی شہوت ٹوٹ جائے اور اس میں ٹھہراؤ آئے ، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ شادی کے لیے کوشش نہ کرے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ اسے شادی کے لیے تعاون کرنے والا مل جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے کوئی ایسا شخص مل جائے اس کی دینداری اور صلاحیتوں کا معترف ہو جائے ۔
تو یہ سب امور انفرادی معاملات ہیں جو کہ حالات اور رسم و رواج کے اعتبار سے الگ الگ ہو سکتے ہیں۔
جبکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ایک عمومی حکم ہے، نیز شادی کی استطاعت نہ رکھنے والے لوگوں کو روزوں کے ذریعے تحفظ دینے کی بات کی گئی ہے۔
لہذا اگر کسی شخص کو شادی کے اسباب مہیا ہو جائیں تو اس کے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ شادی کی ترغیب دلائی جائے گی اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب فرمایا: (اور جو استطاعت نہ رکھے) تو یہ نہیں کہا کہ وہ شادی نہ کرے، بلکہ فرمایا: (تو وہ روزوں کی پابندی کرے) تا کہ گناہ میں ملوث نہ ہو جائے۔
لیکن اگر شادی کی استطاعت ہو چاہے اس کیلیے اسے کچھ تکلیف اور مشقت اٹھانی پڑے تو اس میں بلا شک و شبہ کوئی حرج نہیں ہے ۔
کیونکہ روزوں کا مشورہ اس وقت دیا گیا ہے جب استطاعت نہ ہو لیکن اگر استطاعت تو ہے لیکن تھوڑی سی مشقت برداشت کرنی پڑے گی تو شادی کرنا زیادہ بہتر ہے۔
واللہ اعلم.