"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
نماز روزے کی صورت میں کسی بھی عبادت کے صحیح ہونے کیلیے نیت شرط ہے، اور کوئی بھی عبادت نیت کے بغیر صحیح نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ بخاری: (1) اور مسلم: (1907) میں ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کیلیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی)
امام نووی رحمہ اللہ کہتےہیں:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ : اعمال اسی وقت شمار ہوتے ہیں جب نیت ہو اور اگر عمل کرنے کی نیت نہ ہو تو پھر عمل شمار نہیں ہوتا، اس حدیث میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ طہارت اور وضو کرنا، غسل، تیمم وغیرہ بھی عبادات ہیں اور یہ نیت کے بغیر صحیح نہیں ہوں گے، اسی طرح نماز، زکاۃ، روزہ، حج اور اعتکاف سمیت تمام عبادات نیت کے بغیر صحیح نہیں ہوں گی" انتہی
دوم:
فرض روزے کیلیے فجر سے پہلے رات کے وقت میں نیت کرنا ضروری ہے، فرض روزوں کی قضا کیلیے رکھا جانے والا روزہ بھی اسی حکم میں آئے گا۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"روزے کیلیے روزانہ طلوعِ فجر سے پہلے نیت کرنا شرعی طور پر واجب ہے؛ کیونکہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے روزے کی نیت فجر سے پہلے نہیں کی تو اس کا کوئی روزہ نہیں ) اسے اصحاب سنن [ابو داود، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ] نے روایت کیا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (9/ 147)
ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رمضان ، نذر، کفارہ اور قضائے رمضان کے روزوں میں رات کے وقت نیت کرنا ضروری ہے" انتہی
http://www.binbaz.org.sa/mat/13420
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (26863) کا مطالعہ کریں۔
سوم:
نیت کے صحیح ہونے کیلیے یہ شرط ہے کہ نیت پختگی کے ساتھ کی جائے ، بغیر پختگی کے نیت درست نہیں ہو گی۔
زکریا انصاری رحمہ اللہ "أسنى المطالب" (1/ 411) میں کہتے ہیں:
"روزے کیلیے بھی نماز کی طرح تخصیص کے ساتھ پختہ نیت کرنا واجب ہے؛ کیونکہ حدیث ہے کہ: (بیشک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے)چنانچہ نیت کرتے ہوئے ذہن میں معین عبادت کی تعین کرنا لازمی ہے، نیز فرض روزے کیلیے نیت کا وقت فجر سے پہلے ہے چاہے روزہ نذر کا ہو یا قضا کا یا کفارے کا، اسی طرح روزرکھنے والا نابالغ بچہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ حدیث میں ہے کہ: (جو شخص فجر سے پہلے روزے کیلیے نیت نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں ) اسے دارقطنی وغیرہ نے روایت کیا ہے اور اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا"
مندرجہ بالا تفصیلات کے مطابق:
یوم عرفہ کو رکھا جانے والا روزہ صرف نفل روزہ تھا؛ کیونکہ صرف نفل روزے کی نیت ہی اس وقت کی گئی تھی، اگر چہ پہلے فرض روزے کی قضا کرنے کی نیت بھی تھی، لیکن روزہ رکھتے وقت صرف نفل روزے کی نیت تھی اس لیے فرض روزے کی نیت کالعدم ہو گی؛ کیونکہ فرض روزے کی نیت رات کے وقت نہیں کی گئی، جس کے نتیجے میں روزے کی بنیاد صرف نفل روزے کی نیت پر رکھی جائے گی۔
واللہ اعلم.