"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد اور مکمل نماز ادا کرنے پہلے حیض آنے کی صورت میں ظہر کی نماز کی قضائی آپ پر واجب ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے اگر عورت کو حیض آجائے تو طہر کے بعد اس نماز کی قضائی دے گی"انتہی
ماخوذ از: " مجموع فتاوى ابن عثيمين " (12/218)
اس بات کا بیان سوال نمبر (111522) اور(82106) کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔
دوم:
ظہر کی یا دیگر سنن مؤکدہ کے بارے میں یہ ہے کہ انکی قضائی واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، وہ بھی اس کیلئے جس کی سنتیں کسی عذر کی بنا پر رہ گئی ہوں، اور عذر زائل ہوجائے،ویسے اس مسئلہ میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں، چنانچہ جو شخص قضا دے دے تو اچھا ہے، اور جو قضا نہ دے اس پر کوئی گناہ یا حرج والی بات نہیں ہے، اس بارے میں سوال نمبر (114233 )میں پہلے تفصیل گزر چکی ہے۔
لیکن کس حد تک سنن مؤکدہ کی قضائی دی جاسکتی ہے؟
اس بارے میں " الموسوعة الفقهية الكويتية " (34/ 38) میں درج ذیل مختلف اقوال ذکر کئے گئے ہیں:
1- سنتوں کی بالکل بھی قضائی نہیں دی جاسکتی۔
2- دن کی نمازوں کی سنتوں کی قضائی سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے دی جاسکتی ہے، جبکہ رات کی نمازوں کی سنتوں کی قضائی طلوعِ فجر سے پہلے پہلے دی جاسکتی ہے، اور فجر کی سنتوں کی قضائی جب تک دن باقی ہو اسوقت تک دی جاسکتی ہے۔
3- ہر نماز کی سنتیں آئندہ نماز کی ادائیگی سے قبل قضا پڑھی جاسکتی ہیں، چنانچہ فجر کی سنتیں ظہر پڑھنے سے پہلے پہلے قضا پڑھی جاسکتی ہیں۔
4- اگلی نماز کے وقت کا اعتبار ہوگا، اگلی نماز پڑھنےکا نہیں ۔
جبکہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بات یہی ہے کہ کسی بھی وقت سنتوں کی قضائی کی جاسکتی ہے" انتہی
ماخوذ از: " المجموع " (4/ 42)
خلاصہ یہ ہوا کہ اگر ابھی تک آپ نے ظہر کی نماز کی قضا نہیں دی تو حیض سے فارغ ہونے کے بعد دے دیں، اگر آپ فرائض کے ساتھ سنن مؤکدہ بھی قضا پڑھ لیتے ہیں تو یہ جائز بھی ہے اور اچھا بھی ہے۔
واللہ اعلم .