اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

سورج غروب ہونے سے کیا مراد ہے جس کی وجہ سے روزہ افطار کرنا جائز ہو جاتا ہے۔

21-06-2016

سوال 232822

سوال: اگر انسان کسی اونچی عمارتوں والے شہر میں رہتا ہے اور وہاں کے رہائشی لوگوں کو سورج دکھائی دینا بند ہو جائے تو کیا روزہ افطار کرنا ان کیلیے جائز ہو گا یا اندھیرا چھا جانے کا انتظار کرے گا؟

جواب کا خلاصہ:

اس بنا پر: شہری آبادی اور ایسی جگہوں میں رہائش پذیر لوگ  جہاں سے افق میں غروب آفتاب کا مشاہدہ آنکھوں سے ممکن نہ ہو تو وہ صرف سورج کی ٹکیا غائب ہونے پر روزہ  افطار نہیں کریں گے، بلکہ لازمی طور پر تاکید کرنا ضروری ہے کہ افق میں سورج غروب ہو چکا ہے۔ اب عام طور پر شہروں میں غروب آفتاب کا مشاہدہ کرنا مشکل ہوتا ہے؛ کیونکہ درمیان میں عمارتیں ، تیز روشنی  رکاوٹ بنتی ہیں، عام طور پر مسلمان تقویم اور کیلنڈر وغیرہ پر اعتماد کرتے ہیں ، اس میں بھی کوئی حرج والی بات نہیں ہے؛ بشرطیکہ تقویم اور کیلنڈر کسی معتمد  و معتبر  ادارے نے شائع کیا ہو۔ مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (220838) اور (110407) کا جواب ملاحظہ کریں۔ اللہ اعلم.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی نے روزے کی انتہا ءاور افطاری کے وقت کیلیے واضح ترین علامت مقرر کی ہے اور وہ یہ  ہے کہ افق میں سورج غروب ہو جائے۔

چنانچہ جیسے ہی سورج غروب ہو تو روزے دار کیلیے روزہ افطار کرنا جائز ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ)
ترجمہ: پھر تم رات تک روزہ مکمل کرو۔[ البقرة:187]

اور رات کی ابتدا ء غروب آفتاب سے ہوتی ہے، جیسے کہ تفصیلی طور پر سوال نمبر: (110407) کے جواب میں گزر چکا ہے۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب رات یہاں [یعنی: مشرق کی جانب] سے آ جائے اور دن یہاں [یعنی: مغرب کی جانب] سے  چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار کا روزہ افطار ہو گیا) بخاری: (1954) مسلم: (1100)

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غروبِ آفتاب کے وقت تمام مسلمانوں کے اجماع کے مطابق روزہ  مکمل ہو جاتا ہے" انتہی
"المجموع شرح المهذب" (6/ 304)

اسی طرح ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک دن کے جس حصے کا روزہ رکھنا واجب ہے وہ طلوع فجر سے لیکر غروبِ آفتاب تک ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے" انتہی
"التمهيد" (10/62)

یہاں غروب آفتاب سے مراد یہ ہے کہ سورج کی ٹکیا مکمل طور پر غائب ہو کر چھپ جائے، تاہم سورج غروب ہونے کے بعد افق میں باقی رہ جانے والی سرخی کا کوئی اعتبار نہیں ہے، چنانچہ  جیسے ہی مکمل طور پر سورج کی ٹکیا افق میں غائب ہو گی روزہ افطار کرنا جائز ہو جائے گا۔

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج کی ٹکیا غائب ہوتے ہی مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جائے گا اور اسی وقت روزے دار اپنا روزہ کھول لے گا، اس بات پر تمام اہل علم کا اجماع ہے جسے ابن منذر وغیرہ نے بیان کیا ہے۔

ہمارے [حنبلی ]اور شافعی فقہائے کرام سمیت دیگر کا بھی یہ کہنا ہے کہ: سورج کی ٹکیا کے غروب ہو جانے اور آنکھوں سے اوجھل ہو جانے کے بعد آسمان میں باقی رہ جانے والی شدید سرخی کا کوئی اعتبار نہیں ہے" انتہی
"فتح الباری" (4/352) معمولی تصرف کے ساتھ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب سورج کی ٹکیا غائب ہو جائے تو اس وقت روزے دار روزہ افطار کریں، اسی وقت نماز سے ممانعت کا وقت ختم ہو جاتا ہے، نیز سورج غروب ہونے کے بعد آسمان پر باقی رہ جانے والی سرخی سے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا" انتہی
"شرح عمدة الفقه" (ص: 169)

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سورج غروب ہونے کے بعد باقی رہ جانے والی شعاعوں کو مد نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے؛ لہذا ان شعاعوں کے ہوتے ہوئے بھی مغرب کا وقت داخل ہو جاتا ہے" انتہی
"المجموع شرح المهذب" (3/29)

دوم:

غروب آفتاب کے وقت روزے دار کی دو حالتیں ہی ہو سکتی ہیں:

پہلی:

روزے دار ایسی جگہ پر  ہو جہاں وہ خود افق میں سورج غروب ہوتا ہوا دیکھے، مثلاً: کھلے میدان یا صحراء میں ہو یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہو یا اتنی بلند جگہ پر ہو کہ افق میں سورج غروب ہوتا ہوا دیکھ لے۔

تو ایسی صورت میں سورج کی ٹکیا مکمل غائب ہونے پر روزہ افطار کرنے کا وقت ہو جائے گا۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معتبر بات یہ ہے کہ سورج کی ٹکیا مکمل طور پر غائب ہو جائے،جیسے  صحراء وغیرہ میں غروب آفتاب کا مشاہدہ معمول کی بات ہے" انتہی
"المجموع " (3/ 29)

دوسری حالت: انسان ایسی جگہ پر ہو جہاں افق میں غروب آفتاب کا مشاہدہ ممکن نہ ہو، چاہے عدم امکان کا سبب کچھ بھی ہو مثال کے طور پر شہر کا رہائشی ہو کہ عمارتوں کی وجہ سے افق نظر ہی نہ آئے، یا کسی گہری وادی میں رہائش پذیر ہو ، یا پہاڑوں کے دامن میں رہائش رکھی ہوئی ہو کہ چاروں طرف پہاڑوں کی وجہ سے سورج کو ڈوبتا ہوا دیکھنا محال ہو، یا   کوئی بھی اور وجہ ہو۔

تو ایسی صورت میں سورج کا  اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونے کے بعد روزہ افطار کرنا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ ایسا عین ممکن ہے کہ عمارتوں کے پیچھے چلے جانے کی وجہ سے اس شخص کی آنکھوں سے تو سورج اوجھل ہو جائے لیکن حقیقت میں غروب نہ ہوا ہو ، لہذا ایسی صورت میں سورج کے غروب ہونے کیلیے دیواروں پر پڑنے والی سورج کی روشنی سے رہنمائی مل سکتی ہے؛ چنانچہ جیسے ہی دیواروں اور بلند جگہوں پر سے سورج کی روشنی ختم ہو جائے تو یہ سورج غروب ہونے کی علامت ہو گی، یا مشرق کی جانب سے رات چھانا شروع ہو جائے ، رات چھانے کا مطلب یہ ہے کہ مشرق کی جانب سے رات کا اندھیرا چھانا شروع ہو جائے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو گا کہ پورے آسمان پر اندھیرا چھا جائے؛ کیونکہ ایسا تو سورج غروب ہونے کے کافی دیر بعد ہوتا ہے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"البتہ شہری آبادی اور پہاڑی ٹیلوں میں سورج غروب ہونے کی معتبر دلیل یہ ہو گی کہ دیواروں اور ٹیلوں  سے سورج کی روشنی ختم ہو جائے، نیز مشرق کی جانب سے اندھیرا چھانا شروع ہو جائے" انتہی
" المجموع " (3/29)

اسی طرح "الفواکہ الدوانی" (1/168) میں ہے کہ:
"مصنف کا یہ کہنا کہ مغرب کا وقت سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے یہ ان لوگوں کیلیے ہے جو پہاڑوں کی چوٹیوں یا میدانی زمین پر رہتے ہوں۔

لیکن جو لوگ پہاڑوں کے دامن میں رہتے ہیں وہ سورج کے آنکھوں سے اوجھل ہونے پر اعتماد نہیں کرینگے، بلکہ مشرقی جانب سے اندھیرا چھانے پر اعتماد کرینگے، لہذا جیسے ہی مغرب کی جانب سے اندھیرا چھانا شروع ہو جائے گا تو یہ سورج غروب ہونے کی دلیل ہو گی، اس لیے وہ لوگ تبھی نماز پڑھیں گے اور روزہ افطار کرینگے" انتہی

ابن دقیق العید کہتے ہیں:
"ہر جگہ کا حکم الگ  الگ ہے، چنانچہ جس جگہ میں دیکھنے والے اور سورج کی ٹکیا کے درمیان میں کوئی رکاوٹ حائل  ہو تو محض سورج کی ٹکیا آنکھوں سے اوجھل ہونے پر اکتفا نہ کرے بلکہ مشرقی جانب رات کا اندھیرا چھانے کی ابتدا ء ہونے پر اعتماد کرے" انتہی
"إحكام الأحكام " (1/166)

حطاب کہتے ہیں کہ:
"میدانی علاقوں میں مغرب کا وقت تب شروع ہوگا جب سورج کی ٹکیا غائب ہو جائے گی، لیکن جن پہاڑی علاقوں میں سورج پہاڑوں کے پیچھے غائب ہوتا ہے  تو وہاں پر مشرقی جانب دیکھا جائے گا کہ اگر مشرقی جانب سے رات کا اندھیرا چھانا شروع ہو جائے تو یہ سورج غروب ہونے کی علامت ہو گی " انتہی
"مواهب الجليل" (1/392)

ان تمام اقوال کے بارے میں سابقہ بیان کردہ حدیث دلیل ہے: (جب رات یہاں [یعنی: مشرق کی جانب] سے آ جائے اور دن یہاں [یعنی: مغرب کی جانب] سے  چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار کا روزہ افطار ہو گیا)

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں مذکور ہر دو چیزیں دوسری کو شامل ہیں؛ کیونکہ رات اسی وقت آتی ہے جب دن جانے لگتا ہے اور دن اسی وقت جاتا ہے جب رات چھانے لگتی ہے، تاہم ایسا ہو سکتا ہےکہ  عین غروب آفتاب کے وقت عینی مشاہدہ ممکن نہ ہو لیکن  اندھیرا چھانے کی کیفیت کا مشاہدہ ممکن ہو جس سے غروبِ آفتاب  کا یقین ہوسکے، تو اس وقت روزہ افطار کرنا حلال ہو جائے گا" انتہی
"إكمال المعلم" (4/35)

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: ان تینوں میں سے ہر ایک دیگر دو چیزوں کو شامل اور لازم ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کو یکجا ذکر فرمایا؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی کسی پہاڑی دامن  یا گہری وادی میں ہو تو سورج غروب ہونے کا مشاہدہ نہ کر سکے تو وہ شخص سورج کی روشنی ختم ہونے پر رات کا اندھیرا چھانے کی ابتدا ءکا اندازہ لگا سکتا ہے" انتہی
"شرح صحیح مسلم" (7/ 209)

ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رات کا آنا یا دن کا جانا دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو لازم ہے۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ ایک چیز دوسری کے مقابلے میں مشاہدے کیلیے زیادہ واضح ہو، اس لیے جو چیز زیادہ واضح ہو گی اسے غیر واضح چیز کے بارے میں دلیل سمجھا جائے گا، مثال کے طور پر اگر مغربی جانب کوئی ایسی چیز موجود ہو جس سے غروب آفتاب کا مشاہدہ ممکن نہ ہو لیکن مشرقی جانب صاف ہو  تو ایسی صورت میں مشرقی جانب سے رات کا اندھیرا چھانے کو غروب آفتاب کی دلیل بنایا جائے گا" انتہی
"إحكام الأحكام" (2/ 27).

روزوں کے مسائل
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔