"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایک شخص نے چاولوں کا ایک پورا جہاز خریدا، قبل ازیں کہ مال پہنچتا اور خریدار کے قبضے میں آتا تو اس نے کسی اور کو فروخت کر دیا، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد چاولوں کا یہ جہاز غرق آب ہو گیا تو کیا یہ بیع صحیح ہے؟ مال کے تلف ہونے کا ضامن کون ہو گا؟ نیز بیرون ملک سے بذریعہ سمندری یا ہوائی کارگو کے ذریعے درآمد شدہ مال کے بارے میں بتلائیں کہ کیا مالک کی جانب سے سامان کو روانہ کر دینا اور فریقین کے پاس موجود رسیدوں کا موجود ہونا قبضہ شمار نہیں ہو گا؟ یا پھر حقیقی معنوں میں مال کا قبضے میں آنا شرط ہے؟ نیز اس حالت میں مال تلف ہو جائے تو ضامن کون ہو گا؟ اسی طرح یہ بھی بتلائیں کہ اگر مال ابھی بحری جہاز میں ہی ہو اور بحری جہاز ابھی سمندر میں ہو تو ایسی صورت میں مال فروخت کرنے کا کیا حکم ہے کیونکہ یہ کبھی بھی کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔
الحمد للہ.
اول:
بیع کے بعد مال مالک کی ملکیت سے نکل کر خریدار کی ملکیت میں آ جاتا ہے، لیکن اس کی ضمانت بائع سے نکل کر مشتری کے ذمے اسی وقت آئے گی جب خریدار اسے اپنے قبضے میں لے لے۔
چنانچہ اگر خریدار بذات خود مال اپنے قبضے میں لے، یا اپنے نمائندے کے ذریعے لے، اور خریدار کے گودام سے نکال لے تو اب مشتری کے لیے اسے فروخت کرنا جائز ہے، چاہے وہ بحری یا ہوائی جہاز میں ہو؛ کیونکہ یہ مال قبضے اور منتقل کرنے کی وجہ سے اسی مشتری کی ضمانت میں ہے، اسی لیے اس مشتری کے لیے اس مال کو فروخت کرنا اور اس سے نفع کمانا جائز ہے، چنانچہ اس مال کی بیع اس کے لیے اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک یہ مال اس کی ضمانت میں نہیں آ جاتا، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت تک نفع کمانے سے منع فرمایا جب تک اس کا ضامن نہ ہو) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (نفع ، تبھی ملے گا جب نقصان کا ضامن بھی ہو)
چنانچہ اگر فریقین کے درمیان یہ طے پائے کہ خریدار کی منتخب کردہ یا بائع کی جانب سے تجویز کنندہ کارگو کمپنی کو مال سپرد کرتے ہی بائع کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی تو مال کا گودام سے نکلنا، اور پھر گودام سے بحری یا فضائی کارگو کمپنی تک منتقل ہو جانا ، بیع کی رسیدیں دے دینا یہ سب کچھ صرف قبضہ ہی نہیں بلکہ قبضے سے بھی زیادہ چیز ہے۔
اس طرح مال مشتری کی ضمانت میں آ جائے گا، لہذا اگر مال بحری یا فضائی کسی بھی کارگو کے دوران تلف ہو جائے تو اس کی ضمانت مشتری پر ہو گی؛ کیونکہ مشتری نے مال کو خود یا اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے قبضے میں لے کر بندر گاہ تک پہنچایا ہے۔
دوم:
مال کی بحری یا ہوائی جہاز میں موجودگی کے وقت بیع کرنا صحیح ہے، اس سے ملکیت منتقل ہو جائے گی۔
چنانچہ اگر تاجر اپنا مال پہنچنے سے پہلے ہی جہاز میں موجودگی کے وقت فروخت کر دے اور مندرجہ بالا بیان کردہ تفصیلات کی روشنی میں مال تاجر کے قبضے میں بھی آ چکا ہو تو بیع ٹھیک ہو گی، اور اس مال کو خریدنے والے کے پاس اختیار ہو گا کہ مال پہنچنے کے بعد اگر اس میں کوئی عیب رونما ہو گیا، یا معاہدے کے مطابق چیز نہ ہو تو واپس کر دے۔
لیکن اگر مال پہنچنے سے پہلے تلف ہو جاتا ہے تو پھر یہ نئے خریدار کی ضمانت میں نہیں ہو گا؛ کیونکہ مال ابھی تک تاجر کی ضمانت میں ہے، جب تک نیا خریدار اپنے قبضے میں نہیں لے لیتا اس وقت تک اس کی ضمانت تاجر پر ہی ہو گی۔
خلاصہ یہ ہوا کہ:
اگر خریدار یا درآمد کنندہ (Importer) شخص نے خود چاول وصول کیے، اور اس نے خود ہی کارگو کروائے، یا اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے برآمد کنندہ (Exporter)یا پہلے تاجر سے مال وصول کیا، چاہے وصول کرنے کے لیے کارگو کمپنی کی ہی ذمہ داری کیوں نہ ہو، اور پھر تاجر کی مطلوبہ جگہ تک پہنچنے سے پہلے مال تلف ہو جائے تو وہ تاجر کی ضمانت میں ہو گا؛ کیونکہ تاجر نے حقیقی طور پر اسے وصول کیا ہے اور اسے منتقل بھی کر لیا۔
اور اگر پہلے بائع یا برآمد کنندہ (Exporter) نے خود ہی اس مال کو کارگو کروایا، یا اپنے نمائندے کے ذریعے کارگو کیا، اور مال ابھی جہاز میں ہی موجود تھا کہ بیع ہو گئی اور مال پہنچنے سے قبل تلف ہو گیا تو یہ اسی بائع یا برآمد کنندہ (Exporter) کی ضمانت میں ہے، وہی اس کا ضامن ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (217314 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم