"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا عورت دوران حیض قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے ؟
الحمد للہ.
اہل علم کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں:
چنانچہ جمہور فقہائے کرام حائضہ کے پاک ہونے تک قرآن مجید کی تلاوت کی حرمت کے قائل ہیں، اس لیے ان کے ہاں عورت حیض میں تلاوت نہیں کر سکتی، اس سے صرف ذکر و اذکار اور دعا مستثنی ہے جس کا مقصد تلاوت نہ ہو ، مثلاً: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ ایسے ہی: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یا پھر: رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ وغیرہ قرآنی آیات بطور دعا پڑھی جانے والی دیگر دعائیں ہیں وہ بھی عمومی ذکر میں شامل ہیں۔
فقہائے کرام نے ممانعت کے کئی دلائل بیان کیے ہیں، مثلاً:
1 - یہ عورت جنبی کے حکم میں ہے کیونکہ دونوں پر غسل فرض ہوتا ہے، اور حدیث میں ثابت ہے کہ:
علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں قرآن مجید کی تعلیم دیا کرتے تھے، اور جنابت کے علاوہ کوئی اور چیز انہیں قرآن سے نہیں روکتی تھی "
سنن ابو داود ( 1 / 281 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 146 ) سنن نسائی ( 1 / 144 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 207 ) مسند احمد ( 1 / 84 ) صحیح ابن خزیمۃ ( 1 / 104 ) امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے، اور حافظ ابن حجر کہتے ہیں:
حق یہی ہے کہ یہ حسن کے درجہ کی ہے اور قابل حجت ہے۔
2 - ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
" حائضہ عورت اور جنبی شخص قرآن میں سے کچھ بھی نہ پڑھے "
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنی ( 1 / 117 ) سنن البیھقی ( 1 / 89 ).
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اسماعیل بن عیاش حجازیوں سے روایت کرتے ہیں، اور اس کا حجازیوں سے روایت کرنا ضعیف ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کا علم رکھنے والوں کے ہاں بالاتفاق یہ حدیث ضعیف ہے۔ ختم شد
دیکھیں: مجموع فتاوی ابن تیمیہ: ( 21 / 460 ) ، نصب الرایۃ: ( 1 / 195 ) اور تلخیص الحبیر: (1/183)
اور بعض اہل علم حائضہ عورت کے لیے قرآن مجید کی تلاوت جائز قرار دیتے ہیں، امام مالک کا مسلک یہی ہے، اور امام احمد سے بھی ایک روایت ہے جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اختیار کیا اور امام شوکانی نے راجح قرار دیا ہے، انہوں نے کئی چیزوں کو دلیل بنایا ہے، جن میں چند درج ذیل ہیں:
1 - اصل میں اس کا حکم جواز اور حلت ہی ہے حتی کہ اس کی ممانعت میں کوئی دلیل مل جائے، لیکن ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جو حائضہ عورت کو قرآن کی تلاوت سے منع کرتی ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حائضہ عورت کی تلاوت کی ممانعت میں کوئی صریح اور صحیح نص نہیں ملتی۔ آپ مزید کہتے ہیں کہ: یہ تو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں بھی عورتوں کو حیض آتا تھا، لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں قرآن کی تلاوت سے منع نہیں کیا، جس طرح کہ انہیں ذکر و اذکار اور دعا سے منع نہیں فرمایا۔
2 - اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید کی تلاوت کا حکم دیا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کی تعریف کی اور اسے عظیم اجر و ثواب دینے کا وعدہ فرمایا ، چنانچہ اس سے منع اسی کو منع کیا جا سکتا ہے جب اس کو روکنے کی دلیل مل جائے، اور ایسی کوئی دلیل نہیں جو حائضہ عورت کو قرآن مجید کی تلاوت سے منع کرتی ہو، جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
3 - قرآن مجید کی تلاوت سے منع کرنے کے لیے حائضہ عورت کو جنبی پر قیاس کرنا صحیح نہیں بلکہ یہ قیاس مع الفارق ہے، کیونکہ جنبی شخص کے اختیار میں ہے کہ وہ اس مانع کو غسل کر کے زائل کر لے، لیکن حائضہ عورت ایسا نہیں کر سکتی، اور اسی طرح حیض کی مدت بھی لمبی ہوتی ہے، لیکن جنبی شخص کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اسے نماز کا وقت ہونے پر غسل کرنے کا حکم ہے۔
4 - حائضہ عورت کو قرآن مجید کی تلاوت سے منع کرنے میں اس کے لیے اجر و ثواب سے محرومی ہے، اور ہو سکتا ہے اس کی بنا پر وہ قرآن مجید میں سے کچھ بھول جائے، یا پھر اسے تعلیم و تعلّم کے دوران قرآن مجید پڑھنے کی ضرورت ہو۔
مندرجہ بالا سطور سے حائضہ عورت کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کے جواز کے قائلین کے دلائل کی قوت ظاہر ہوتی ہے، اور اگر عورت احتیاط کرتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت صرف اس وقت کرے جب اسے بھول جانے کا خدشہ ہو تو یہ اس کا محتاط عمل ہو گا۔
یہاں ایک تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ جو کچھ اوپر کی سطور میں بیان ہوا ہے وہ حائضہ عورت کے لیے زبانی قرآن مجید کی تلاوت کے متعلق ہے۔
لیکن قرآن مجید پکڑ کر تلاوت کرنے کا حکم اور ہے، اس میں اہل علم کے موقفوں میں سے راجح قول یہ ہے کہ بے وضو شخص کے لیے قرآن مجید کو چھونا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اسے پاکبازوں کے علاوہ اور کوئی نہیں چھوتا .
اور اس خط میں بھی ذکر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرو بن حزم کو دے کر یمن کی طرف بھیجا تھا اس میں ہے:
" پاک شخص کے علاوہ قرآن مجید کو کوئی اور نہ چھوئے "
موطا امام مالک ( 1 / 199 ) سنن نسائی ( 8 / 57 ) ابن حبان حدیث نمبر ( 793 ) سنن بیھقی ( 1 / 87 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
شہرت کے اعتبار سے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
اور امام شافعی کہتے ہیں: ان کے ہاں ثابت ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا خط ہے۔
اور ابن عبد البر کہتے ہیں:
سیرت نگاروں اور اہل معرفت کے ہاں یہ مشہور خط ہے اپنی شہرت کی بنا پر اس کی سند کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کا اس خط کو قبولیت دینا تواتر کے مشابہ ہے۔ ختم شد
اور شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: خط والی روایت صحیح ہے۔
دیکھیں: التلخیص الحبیر ( 4 / 17 ) اور نصب الرایۃ ( 1 / 196 ) اور ارواء الغلیل ( 1 / 158 )، حاشیۃ ابن عابدین ( 1 / 159 ) المجموع ( 1 / 356 ) کشاف القناع ( 1 / 147 ) المغنی ( 3 / 461 ) نیل الاوطار ( 1 / 226 ) مجموع الفتاوی ابن تیمیۃ ( 21 / 460 ) الشرح الممتع للشیخ ابن عثیمین ( 1 / 291 ).
اس لیے اگر حائضہ عورت قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا چاہے تو وہ اسے کسی الگ چیز کے ساتھ پکڑے مثلاً کسی پاک صاف کپڑے یا دستانے کے ساتھ، یا قرآن کے اوراق کسی لکڑی اور قلم وغیرہ کے ساتھ الٹائے، قرآن کی جلد کو چھونے کا حکم بھی قرآن جیسا ہی ہے۔
واللہ اعلم