"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال میں آپ کی اتباع کرنے کی کیا دلیل ہے؟ بالخصوص یہ قاعدہ کہ “عموم کا اعتبار کیا جائے گا” اس میں اختلاف ہے۔ تو کیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم شرعی قواعد و ضوابط پر عمل داری میں اپنی امت کی طرح پابند ہیں؟ اور کیا اس مسئلے میں سب کا اتفاق ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر کوئی عمل کریں تو آپ کے طریقے پر چلنے کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر کوئی عمل آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تنہائی میں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی صحابی نے عمل کرتے ہوئے دیکھ لیا تو کیا اس پر عمل کیا جائے گا؟ مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ کیا مجھے ایسے مسائل کے متعلق غور و فکر کرنا چاہیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر چلنے کے حوالے سے ابلیس میرے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔
الحمد للہ.
اول:
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال کی متعدد اقسام ہیں، ان میں سے کچھ تشریعی ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو بشری فطرت کے تحت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیے ہیں جیسے کہ کھانا اور سونا وغیرہ، اور کچھ ایسے ہیں جن میں تشریعی اور فطری دونوں پہلو ہیں، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سوار ہو کر حج کرنا، اور اسی طرح فجر کی سنتیں ادا کرنے کے بعد لیٹنا۔
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خالصتاً تشریعی افعال مثلاً: نماز ادا کرنا، روزہ رکھنا ، حج کرنا اور اذکار کرنا ، اسی طرح ایسے افعال جن کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کو ترغیب دلائی ہے مثلاً: مسواک کرنا، کھانا کھاتے ہوئے بسم اللہ پڑھنا، مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں رکھنا وغیرہ تو ان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی جائے گی؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
ترجمہ: یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول کی ذات عملی نمونہ ہے، ایسے شخص کے لیے جو اللہ تعالی اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ تعالی کا ڈھیروں ذکر کرتا ہے۔ [الاحزاب: 21]
اسی طرح فرمایا:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: کہہ دے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، تم سے اللہ بھی محبت فرمائے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [آل عمران: 31]
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
ترجمہ: اور رسول تمہیں جو بھی دے اسے لے لو، اور جس چیز سے تمہیں روکے اس سے رک جاؤ۔ [الحشر: 7]
لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فطری اور جبلی افعال جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بشریت اور عادت کے طور پر فرماتے تھے مثلاً: کھانا، پینا، سونا، اور جاگنا وغیرہ تو ان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔
تاہم جن افعال میں جبلی اور تشریعی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں ان کے متعلق اختلاف ہے۔
مراقی السعود میں ہے کہ:
{ وَفِعْلُهُ الْمَرْكُوْزُ فِي الْجِبِلَّهْ … كَالْأَكْلِ وَالشُّرْبِ فَلَيْسَ مِلَّهْ }
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خالصتاً جبلی عمل جیسے کہ کھانا اور پینا تو یہ ملت کے مطلوبہ حصہ میں شامل نہیں ہے۔
{ مِنْ غَيْرِ لَمْحِ الْوَصْفِ وَالَّذِي احتَمَلْ … شَرْعًا فَفِيْهِ قُلْ تَرَدُّدٌ حَصَلْ}
ان جبلی افعال کی کیفیت اس میں شامل نہیں، اور اسی طرح جس فعل کے جبلی یا شرعی ہونے کا بھی احتمال ہو تو اس میں اختلاف ہے۔
{ فَالْحَجُّ رَاكِبًا عَلَيْهِ يَجْرِيْ … كَضِجْعَةٍ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ}
مثلاً: ان افعال میں سوار ہو کر حج کرنا اور نماز فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا شامل ہے۔
مصنف کا کہنا کہ: { مِنْ غَيْرِ لَمْحِ الْوَصْفِ } یعنی: جبلی افعال کی کیفیت اس میں شامل نہیں، مطلب یہ ہے کہ کھانا بنیادی طور پر فطری اور جبلی عمل ہے، لیکن دائیں ہاتھ سے کھانا اور اپنے آگے سے کھانا ، اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا وغیرہ ایسی کیفیات ہیں کہ جن پر عمل کیا جائے گا۔
الشیخ امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال کو جبلی اور تشریعی ا عتبار سے دیکھیں تو اس کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم: خالصتاً جبلی عمل: اس سے مراد وہ فعل ہے جس کا بشری جبلت فطری طور پر تقاضا کرتی ہے، مثلاً: کھڑے ہونا، بیٹھنا، کھانا اور پینا وغیرہ تو یہ ایسے افعال ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شریعت اور اقتدا کے لیے نہیں کیے؛ یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ میں اللہ کے قرب کی تلاش اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا میں بیٹھ رہا ہوں یا کھڑا ہو رہا ہوں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی کھڑے ہوتے تھے اور بیٹھتے تھے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ افعال بطور شریعت اور اقتدا کے لیے نہیں کیے تھے۔ جبکہ بعض علمائے کرام کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جبلی عمل اس کے جواز کی دلیل ہے، جبکہ بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ آپ کے عمل سے یہ کام مندوب ہو جاتا ہے۔
لیکن ظاہر یہی ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ افعال شریعت سازی کے طور پر نہیں فرمائے، تاہم آپ کا ان پر عمل ان کے جواز کی دلیل ہو گا۔
دوسری قسم: ایسا فعل جو خالصتاً شرعی ہے، اس سے مراد وہ عمل ہے جو اقتدا اور شریعت سازی کے لیے کیا جائے، مثلاً: نماز، حج کے ارکان وغیرہ، انہی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (تم ایسے نماز ادا کرو جیسے تم مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: (تم مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو)
تیسری قسم: اسی قسم کے متعلق یہاں گفتگو کرنا مقصود ہے کہ ایسا عمل جو فطرت یا شریعت سازی دونوں کے لیے ہو سکتے ہیں۔
اس کا ضابطہ یہ ہے کہ: کوئی بھی جبلی عمل جس کا بشریت فطری طور پر تقاضا کرے ، لیکن یہ کام کسی عبادت کے دوران کیا گیا ہے، یا عبادت کے ذریعے کے طور پر کیا گیا، مثلاً: حج کے دوران سواری کا استعمال ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حج کے دوران سوار ہونا فطری عمل بھی ہو سکتا ہے؛ کیونکہ انسانی فطرت یہ چاہتی ہے کہ سواری استعمال کی جائے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سفروں میں تعبدی نیت کے بغیر صرف فطری اور جبلی تقاضے کے طور پر سواری استعمال کی ہے ۔ لیکن یہاں پر سواری کا استعمال تشریعی بھی ہو سکتا ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ عمل حج کے افعال کی ادائیگی میں کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: (مجھ سے ارکان حج کی ادائیگی سیکھ لو)
اسی کے فرعی مسائل میں یہ مسائل بھی آتے ہیں: نماز میں جلسہ استراحت، نماز عید کی ادائیگی کے بعد جانے والے راستے کی بجائے کسی دوسرے راستے سے آنا، فجر کی دو سنتیں ادا کرنے کے بعد اور نماز فجر سے پہلے دائیں پہلو پر لیٹنا، مکہ میں داخل ہوتے ہوئے کَدا سے داخل ہونا اور نکلتے ہوئے کُدَی سے نکلنا، منی سے واپسی کے بعد محصب وادی میں رکنا وغیرہ۔
ان تمام مسائل میں اہل علم کا باہمی اختلاف ہے؛ کیونکہ یہ افعال جبلی اور تشریعی دونوں کا احتمال رکھتے ہیں۔” ختم شد
أضواء البيان (4/ 300)
دوم:
بنیادی طور پر اصول یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنی امت کے ساتھ احکامات کے پابند ہیں، تا آں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے خصوصیت کی دلیل آ جائے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہر عمل میں اقتدا کیا کرتے تھے اور یہ نہیں پوچھتے تھے کہ کیا یہ کام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاصہ ہے یا نہیں؟ جیسے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھاتے ہوئے اپنے جوتے اتار دئیے، اس پر صحابہ کرام نے بھی اپنے اپنے جوتے اتار دئیے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز مکمل فرمائی تو پوچھا: تم نے اپنے جوتے کس لیے اتارے؟ تو انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے جوتے اتار دئیے ہیں تو ہم نے بھی اتار دئیے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے تو جبریل نے آ کر بتلایا تھا کہ آپ کے دونوں جوتوں میں گندگی لگی ہوئی ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو اپنے جوتوں کو الٹا کر کے دیکھ لے؛ اگر ان میں گندگی لگی ہوئی ہو تو اسے زمین سے رگڑ کر صاف کر لے، اور پھر ان میں نماز ادا کرے۔) مسند احمد: (17 / 242 ، 243)، نیز مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
بلکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت غصے کا اظہار فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کو آپ کی خصوصیت قرار دیا۔
جیسے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حالتِ جنابت میں صبح اٹھتا ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھنا چاہتا ہوں [تو میں کیا کروں؟ پہلے غسل کروں یا اذان کے بعد کر لوں؟] تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں بھی حالتِ جنابت میں اٹھتا ہوں اور روزہ بھی رکھنا ہوتا ہے، تو میں [اذان کے بعد] غسل کر کے روزہ رکھ لیتا ہوں، اس پر آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! آپ تو ہم جیسے نہیں ہیں! آپ کے تو اللہ تعالی نے سابقہ و لاحقہ گناہ معاف کیے ہوئے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم غضب ناک ہوئے اور فرمایا: (اللہ کی قسم! میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ تم سے زیادہ اللہ کی خشیت اپناؤں اور جس کی اتباع کرنی ہے میں تم سے زیادہ جانتا ہوں)) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ (2389)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی بھی عمل کے بارے میں واضح صریح دلیل کے بغیر یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاصہ ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے متعلق خاصے کی بات کرنے والے پر اظہار غضب فرمایا تھا، اور ہر وہ چیز جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے غصے کا باعث بنے تو وہ حرام ہوتا ہے۔” ختم شد
” الإحكام في أصول الأحكام ” ( 4 / 433 )
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بنیادی اصول یہ ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تمام احکامات میں اپنی امت کے ساتھ اطاعت گزاری میں شریک ہیں، ما سوائے ان احکامات کے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے دلیل کی بنیاد پر خاص ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے [احرام کھولنے کے متعلق] عرض کیا تھا کہ:” آپ سب کے سامنے باہر جائیں اور جب تک آپ اپنا سر منڈوا نہیں لیتے اور قربانی نحر نہیں کر لیتے کسی سے بات بھی نہ کریں” کیونکہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یقین تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی ضرور کریں گے۔ “ختم شد
زاد المعاد ( 3 / 307 )
سوم:
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی بھی عمل نقل کیا جائے تو اس میں سابقہ تفصیل ملحوظ رکھی جائے گی، لہذا اگر اس عمل کا تعلق فطری اور جبلی افعال سے نہ ہو تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا کی جائے گی الا کہ دلیل سے وہ کام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاصہ ثابت ہو جائے، نیز اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صحابہ کرام کی جماعت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس عمل کو دیکھے یا کوئی ایک صحابی دیکھے۔
مثلاً: پیشاب کرنا فطری عمل ہے، لیکن کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پیشاب کرنا شرعی آداب میں شامل ہے، انہی آداب کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا ہو گی؛ اس لیے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا منع ہے اور ممانعت شرعی چیز ہے جسے تسلیم کرنا لازم ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ثابت ہے تو یہاں دونوں چیزوں کو جمع کرنے کے متعلق دیکھا جائے گا۔
چنانچہ سنن ابن ماجہ: (309) میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ علامہ بوصیری رحمہ اللہ زوائد میں کہتے ہیں کہ: محدثین کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سخت ضعیف قرار دیا ہے۔
اسی طرح جامع ترمذی: (12) میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ کہتے ہیں کہ: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عمر! کھڑے ہو کر پیشاب مت کرو۔) تو اس کے بعد سے میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ لیکن اس حدیث کو بھی امام ترمذی اور البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
ایسے ہی بزار رحمہ اللہ نے سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کھڑے ہو کر پیشاب کرنا سنگ دلی ہے۔) اس حدیث کی طرف امام ترمذی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے اور کہا کہ یہ: غیر محفوظ روایت ہے۔
اس بنا پر: کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے ممانعت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے۔
لیکن ترمذی: (12) اور نسائی: (29) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: “تمہیں جو یہ بیان کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر پیشاب کیا کرتے تھے تو تم اس کی بات مت تسلیم کرو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔” اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نيل الأوطار (1/ 16) میں کہتے ہیں:
“یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کار بیٹھ کر پیشاب کرنے کا تھا، لہذا کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہو گا۔
تاہم کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی دلیل بخاری: (224) اور مسلم: (273) میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک قوم کی روڑی پر تشریف لائے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگوایا تو میں آپ کے پاس پانے لایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو فرمایا۔”
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے حوالے سے رخصت سیدنا علی، عمر، ابن عمر، زید بن ثابت، سہل بن سعد ، انس، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم اور عروہ رحمہ اللہ سے منقول ہے۔
پھر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک قوم کی روڑی پر آئے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا، اس حدیث کو بخاری اور دیگر اہل علم نے روایت کیا ہے۔
تو یہ ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ عمل بیان جواز کے لیے کیا ہو، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ عمل پوری زندگی میں صرف ایک بار کیا ہے۔
یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ روڑی پر بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی اس لیے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
اور یہ بھی توجیہ پیش کی جاتی ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گردن میں کچھ مسئلہ ہونے کی وجہ سے ایسے کیا تھا۔” ختم شد
“المغنی” (1/ 108)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سیدنا عمر، علی، زید بن ثابت اور دیگر سے منقول ہے کہ انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے، تو ان کے عمل سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنا بلا کراہت جائز ہونا ثابت ہوتا ہے بشرطیکہ کے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا ممکن ہو۔ واللہ اعلم
البتہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی ممانعت ثابت نہیں ہے۔۔۔ واللہ اعلم” ختم شد
فتح الباري (1/ 330)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (9790) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چہارم:
وسوسوں سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ بیماری اور نقصان دہ چیز ہے۔ پھر دین کی روح سمجھنا، سنتوں کی معرفت حاصل کرنا اور اقتدائے سنت کا اہتمام کرنا کسی بھی طرح سے وسوسہ نہیں ہے۔
اللہ تعالی آپ کو مزید علم ،عمل اور خیر عطا فرمائے۔
واللہ اعلم