"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا اپنی شادی کے لئے زرعی رقبہ فروخت کر سکتا ہوں؟ واضح رہے کہ یہ رقبہ میری، میرے بھائی اور والدین کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہے، اور مجھے شادی کی بھی اشد ضرورت ہے۔
الحمد للہ.
اول:
اگر اس رقبے کے آپ خود مالک ہیں اور آپ کو زنا میں ملوث ہونے کا خدشہ لاحق ہے تو پھر آپ پر شادی کرنا واجب ہے، اور شادی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے زمین کو فروخت کرنا ضروری ہے تو رقبے کو فروخت کر دیں؛ کیونکہ اس صورت میں آپ کی شادی والدین پر خرچ کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے:
1.شادی کرنا اس شخص پر واجب ہے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہے اور اس کے زنا میں ملوث ہونے کا خدشہ ہے۔
یہاں شادی کی استطاعت سے مراد نکاح کی صلاحیت اور بیوی کے اخراجات پورے کرنے کی ہمت ہے۔
اگر شادی کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پھر کثرت سے روزے رکھے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلْيَسْتَعْفِفْ الَّذِينَ لا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه اور وہ لوگ عفت تلاش کریں جو نکاح کے وسائل نہیں رکھتے، یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔[ النور :33] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (نوجوانوں! تم میں سے جو نکاح کے اخراجات کی استطاعت رکھتا ہے تو وہ شادی کر لے اور جس کے پاس استطاعت نہیں ہے تو وہ روزے لازمی رکھے، روزے اس کی شہوت توڑ دیں گے)اس حدیث کو امام بخاری: (5065) اور مسلم : (1400)نے روایت کیا ہے۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (5511) کا جواب ملاحظہ کریں۔
2.انسان کے ذمے والدین کا خرچہ اس وقت لازمی ہوتا ہے جب وہ غریب ہوں، اور انسان خود امیر ہو، اور اگر انسان خود بھی غریب ہو تو اس پر والدین کا نفقہ لازمی نہیں۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (111892) کا جواب ملاحظہ کریں۔
3.والدین کا خرچہ انسان پر واجب مان بھی لیں تو اگر والدین پر خرچ کرنے کے مقابلے میں انسان کی اپنی شادی ہو تو وہ شادی کو ترجیح دے؛ کیونکہ انسان کی اپنی شادی اپنے آپ پر خرچ کرنے کے زمرے میں آتی ہے، اور اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنا والدین پر خرچ کرنے سے مقدم ہے، اسی طرح بیوی پر خرچہ بھی والدین کے خرچے سے مقدم رکھا جائے گا۔
جیسے کہ "كشاف القناع" (5/ 483) میں ہے کہ:
"اگر کسی کے پاس اپنی زیر کفالت افراد کی ضروریات سے زائد مال نہیں ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی ذاتی ضرورت پوری کرے گا ؛ کیونکہ حدیث میں ہے کہ: (پہلے اپنے آپ پر خرچ کرنا شروع کر)
اگر اپنی ذاتی ضرورت سے زائد ہے تو پھر اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرے؛ کیونکہ بیوی کا خرچہ ایک معاہدے کے تحت واجب ہوا ہے، اس لیے بیوی کے خرچے کو ترجیح حاصل ہوگی، یہی وجہ ہے کہ حالات اچھے ہوں یا برے ہر حالت میں بیوی کا خرچہ دنیا پڑتا ہے، اس کے بعد اپنے غلام پر خرچ کرے؛ کیونکہ غلام کا خرچہ بھی اچھے برے تمام حالات میں واجب ہوتا ہے، اس کے بعد پھر اپنے قریب ترین عزیز و اقارب پر خرچ کرے، اس کی دلیل طارق محاربی کی روایت ہے کہ: (سب سے پہلے ان پر خرچ کرو جن کی تم کفالت کرتے ہو، پھر اپنی والدہ اور والد پر، پھر اپنے بہن بھائیوں پر اور پھر اس کے بعد قریب ترین رشتہ داروں پر خرچ کریں) اور ویسے بھی خرچہ برداشت کرنے میں صلہ رحمی اور حسن سلوک دونوں چیزیں ہیں، تو جو قریبی ہیں ان کا دور والے رشتہ داروں سے زیادہ حق ہے" ختم شد
ہمارا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ شادی اور والدین پر اخراجات دونوں کو اکٹھا لے کر چلیں، وہ اس طرح کہ زرعی رقبہ سارا فروخت نہ کریں اور شادی کے اخراجات کم سے کم کریں، ایسی بیوی تلاش کریں جو دیندار اور پاکدامن ہو نیز تھوڑے پر راضی ہونے والی ہو۔
اگر آپ پر شادی کرنا واجب نہیں ہے، اور زمین سے حاصل ہونے والی آمدنی آپ کے اور والدین کے اخراجات کے لئے کافی ہوتی ہے تو پھر آپ کے لئے زمین فروخت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ آپ پر والدین کا خرچہ لازمی ہے، اور دوسری طرف آپ پر شادی واجب بھی نہیں ہے۔
دوم:
اگر زرعی زمین آپ کے والدین یا ان میں سے کسی ایک کی ملکیت میں ہے تو پھر اس زمین میں تصرف اس کے مالک کی اجازت سے ہی ممکن ہے۔
واللہ اعلم