"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر عقد سے پہلے خرید و فروخت کے پختہ وعدے کی صورت میں مؤخر ادائیگی کے ساتھ بیع مؤجل جائز ہے تو پھر قرض کی قرض سے بیع حرام ہونے کی کیا حکمت ہے؟
الحمد للہ.
اول:
ادھار چیز کی ادھار سے بیع بالاجماع حرام ہے، اس کے حرام ہونے پر امام احمد، ابن منذر، ابن قدامہ اور ابن رشد وغیرہ نے اجماع نقل کیا ہے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (4/ 37) میں کہتے ہیں:
"ابن منذر کہتے ہیں: اہل علم کا اجماع ہے کہ قرض کی قرض سے بیع جائز نہیں ہے۔ امام احمد کہتے ہیں: اس پر اجماع ہے۔
ابو عبید اپنی کتاب "الغریب" میں نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع الکالی بالکالی سے منع فرمایا۔ اور اس سے قرض کی قرض سے بیع مراد لی۔ البتہ اثرم رحمہ اللہ امام احمد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اس حدیث کی صحت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: یہ روایت صحیح ثابت نہیں ہے۔" ختم شد
ابن قطان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" وہ تمام اہل علم جن کا علم لکھا کیا گیا ہے سب کا اجماع ہے کہ قرض کی قرض سے بیع منع ہے۔" ختم شد
"الإقناع في مسائل الإجماع" (2/ 234)
قرض کی قرض سے بیع حرام ہونے کی حکمت یہ ہے کہ: اگر قرض اسی پہلے قرض خواہ کو بیچا جا رہا ہے تو یہ عام طور پر سود کا باعث بنتا ہے، اور اگر کسی اور کو قرض فروخت کیا جا رہا ہے تو یہ ممکن ہے کہ سود کا باعث بن جائے، یا پھر جوے کی شکل اختیار کر لے گا یا ایسی چیز سے نفع حاصل کرنا ہو گا جس کا وہ ضامن نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" بیع الکالی بالکالی سے مراد قرض کی قرض کے بدلے بیع ہے، تاہم اس بارے میں حدیث ضعیف ہے، جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام میں اس کی وضاحت کی ہے، لیکن اس حدیث کا معنی ٹھیک ہے جیسے کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اعلام الموقعین میں اس کی وضاحت کی ہے اور دیگر اہل علم بھی یہی بیان کرتے ہیں۔
اس میں ہوتا یہ ہے کہ مثلاً: ایک زید نامی شخص پر قرض ہو تو وہ اپنا قرض کسی کو مزید قرض کے عوض فروخت کر دے، یا پھر قرض خواہ کو ہی فروخت کر دے۔ یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں غرر ہے اور اسی طرح تقابض بھی نہیں ہے۔
لیکن اگر مبیع اور ثمن ربوی اشیا میں سے ہو تو یہ لین دین جائز ہو گا بشرطیکہ مجلس بیع میں ہی بائع اور مشتری قبضہ کر لیں اور اگر ایک ہی جنس ہو تو ہم وزن بھی ہونا لازمی ہے۔ لیکن اگر جنس الگ الگ ہو تو ہم وزن ہونا ضروری نہیں لیکن مجلس بیع میں ہی قبضہ پھر بھی ضروری ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم درہم کے عوض فروخت کرتے ہیں اور دیناروں میں قیمت وصول کر لیتے ہیں، یا دیناروں میں فروخت کرتے ہیں تو درہم وصول کر لیتے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس دن کی قیمت کے لحاظ سے وصول کرو اور بائع مشتری کے درمیان جدائی ہو تو تم دونوں کے درمیان کچھ بھی باقی نہ ہو، اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابو داود اور نسائی نے صحیح سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، اور حاکم نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے اس حدیث کے علاوہ مزید دلائل بھی ہیں۔
لیکن اگر کوئی شخص ادھار چیز خرید کر کسی اور شخص کو نقد یا ادھار قبضہ کرنے کے بعد فروخت کر دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان عام ہے:
وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
ترجمہ: اللہ تعالی نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام کہا ہے۔ [البقرۃ: 275]
اسی طرح فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم ایک وقت مقرر تک ادھار خرید و فروخت کرو تو اسے لکھ لو۔ [البقرۃ: 282]
لیکن ادھار چیز خرید کر اسی دکاندار کو کم قیمت میں فروخت کریں تو یہ جائز نہیں ہے ؛ کیونکہ یہ بیع العینہ ہے اور سود کے ذرائع میں شامل ہے۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے۔" ختم شد
اس کی حکمت اور صورتوں کی تفصیلات جاننے کے لیے آپ "الموسوعة الفقهية الكويتية" (9/176) اور اس کے ما بعد والے صفحات، "الشرح الممتع" (8/444) اور اس کے بعد والے صفحات، اسی طرح "شرح زاد المستقنع" از شیخ شنقیطی جوکہ مکتبہ شاملہ میں موجود ہے کا مطالعہ کریں۔
دوم:
ادھار بیع اس وقت جائز ہے جب مبیع موجود ہو اور بائع کی ملکیت میں ہو، تو یہ حاضر چیز کو ادھار قیمت کے عوض فروخت کرنا ہو گا۔
لیکن اگر مطلوبہ چیز بائع کی ملکیت میں نہیں ہے، تو خریدار اور دکاندار یہ وعدہ کرتے ہیں کہ دکاندار اس چیز کو خرید کر اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر گاہک اس سے ادھار خرید لے گا، لیکن اس وعدے کو وفا کرنا لازم نہیں ہوتا، اور نہ ہی یہ بیع ہوتی ہے محض وعدہ ہوتا ہے، اس طرح سے اگر کوئی لین دین کرے تو اس میں ادھار کی ادھار سے بیع پر مرتب ہونے والے منفی اثرات نہیں آتے۔
اسی لیے جمہور فقہائے کرام مرابحہ کے جائز ہونے کے قائل ہیں، اسی طرح فریقین پر لازم نہ ہونے والے وعدۂِ بیع کو بھی جائز کہتے ہیں؛ کیونکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر دکاندار گاہک کو سامان دکھائے اور کہے: یہ خرید لو، میں تم سے اتنا نفع لوں گا۔ آدمی نے خرید لیا تو یہ خریداری جائز ہے۔ اور نفع کی مقدار بیان کرنے والے شخص کو اختیار ہے چاہے تو بیع جاری رکھے اور چاہے تو نہ کرے۔
اسی طرح اگر کہے: میرے لیے فلاں صفات کی حامل چیز خریدو ، یا کوئی بھی مال اپنی مرضی سے میرے لیے خریدو اور میں تمہیں اس پر مخصوص نفع دے کر خرید لوں گا۔ یہ سب صورتیں یکساں ہیں ۔ پہلے کی بیع بھی جائز ہو گی، اور دوسری بیع میں اختیار ہو گا، یہاں اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر دوسری بیع نقد ہو یا ادھار ہو۔ پہلے کی بیع جائز ہو گی اور دوسری بیع میں دونوں کو اختیار ہو گا اگر چاہیں تو بیع پوری کر لیں ۔
اور اگر پہلے سے ہی دوسری بیع کا وعدہ آپس میں لازمی قرار دیتے ہوئے بیع کریں تو دو وجوہات کی وجہ سے فسخ ہو گی:
پہلی وجہ: انہوں نے مبیع کی بائع کی ملکیت میں آنے سے پہلے بیع کر لی۔
دوسری وجہ: اس میں سود ہے کہ اگر میں فلاں چیز اتنے کی خریدتا ہوں تو آپ کو اتنا نفع دوں گا۔" ختم شد
"الأم" (3/ 39)
یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر وعدۂِ بیع فریقین پر لازم تھا تو یہ بیع منع ہو گی؛ کیونکہ یہ محض وعدہ نہیں بلکہ بیع ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (229091 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تو خلاصہ یہ ہوا کہ صرف وعدے کو بیع کا حکم نہیں دیا جائے گا، ہاں اگر فریقین پر ایفائے وعدہ لازم ہو تو اسے بیع کا حکم دیا جائے گا۔
واللہ اعلم