"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایک عورت نے اسلام قبول کر لیا، لیکن اس کا کوئی ولی زندہ نہیں ہے کیونکہ اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں، جبکہ خاندان کے دیگر افراد غیر مسلم ہیں، ہم نے یورپ میں اسلامک سنٹر سے رابطہ کیا کہ وہ اس خاتون کے ولی بن جائیں، تو سب کے سب نے 100 تا 400 یورو اس کام کے لیے طلب کیے ہیں، جبکہ ہم نہیں چاہتے کہ یہ رقم ادا کریں، ہم نے 20 سے زائد لوگوں سے رابطہ کیا تھا، لیکن سب نے ہی ہم سے مذکورہ فیس کا مطالبہ کیا، میں نے آپ کا فتوی: (333915) پڑھا ، اس میں تھا کہ اگر کسی کو ہماری جیسی صورت حال کا سامنا ہو تو وہ کسی بھی نیک مسلمان شخص کو اپنا ولی بنا لیں، تو میں نے اس خاتون سے کہا کہ کیوں نہ میں اپنے والدین سے کہوں کہ وہ اس نو مسلم خاتون کے ولی بن جائیں، اس پر میرے والد اس عورت کے ولی بن گئے، اور متفقہ حق مہر پر ایجاب و قبول کروایا گیا، اس خاتون نے دلہا کی طرف سے شادی کو دو مسلمان گواہوں کی موجودگی میں قبول کیا یہ دونوں مسلمان بھی ہمارے سے واٹس ایپ کی گروپ وائس کال پر موجود تھے۔ دونوں گواہوں نے یہ دعوی کیا کہ وہ دونوں مسلمان ہیں، تاہم میں نے اس چیز کی مزید چھان بین نہیں کی تھی، تو کیا میرا نکاح صحیح ہے؟ اگر میرا نکاح صحیح نہیں ہے تو مجھے بتلائیں کہ میں کیا کروں؟ چونکہ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی اس لیے جب تک آپ میرے لیے مثبت جواب نہیں دیں گے تو میں اپنی شادی کو مکمل نہیں کروں گا۔
الحمد للہ.
اول:
صحیح نکاح کے لیے شرط ہے کہ عقد نکاح عورت کا ولی کرے یا عورت کے ولی کا وکیل کرے؛ تاہم اگر عورت کا کوئی ولی نہ ہو تو شرعی قاضی اس کا نکاح کرے، اور اگر شرعی قاضی بھی نہ ہو تو کسی اسلامی مرکز کا سربراہ، یا امام، یا مسلمانوں میں سے کوئی عادل شخص نکاح کرا دے۔
جیسے کہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر عورت کسی ایسی جگہ ہے جہاں پر نہ ہی مسلمان حکمران ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی ولی ہے تو ایسی صورت میں اس کا معاملہ ایسے قابل اعتماد شخص کے سپرد ہو گا جو اس کے آس پاس رہتا ہے، ایسی صورت میں وہی اس کا ولی بنے گا اور وہ ہی اس کا نکاح کروائے گا؛ کیونکہ لوگ شادی کے بغیر نہیں رہ سکتے، اس لیے شادی کے لیے ممکنہ امور میں سے بہترین اقدام پر عمل کریں گے۔" ختم شد
"التمهيد" (19/93)
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/362) میں کہتے ہیں:
"اگر عورت کا کوئی ولی نہ ہو، نہ ہی صاحب اقتدار ولی بن سکتا ہو تو امام احمد سے روایت ہے کہ عورت کی اجازت سے کوئی مسلمان عادل شخص اس کا نکاح کروا سکتا ہے۔ چنانچہ امام احمد نے گاؤں کے چوہدری اور نمبردار کے بارے میں کہا کہ: یہ شخص ایسی عورت کا نکاح کروا سکتا ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو، بشرطیکہ وہ اس کے لیے مناسب رشتہ اور حق کو مد نظر رکھے اور گاؤں میں کوئی قاضی بھی نہ ہو۔" ختم شد
چنانچہ اگر آپ کے والد عادل ہیں تو اس نو مسلم خاتون کی شادی کے لیے ولی بننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوم:
جمہور علمائے کرام صحیح نکاح کے لیے دو مسلمان عادل افراد کے گواہ بننے کو شرط قرار دیتے ہیں، تاہم مالکی فقہائے کرام گواہوں کو مستحب قرار دیتے ہیں، اس لیے ان کے ہاں دخول سے قبل گواہ بنانا جائز ہے، چنانچہ ان کے ہاں عقد کے وقت گواہ بنانا ضروری نہیں ؛ لہذا ان کے ہاں دخول سے قبل گواہ بنا لیا جائے تو نکاح صحیح ہو گا۔
جیسے کہ علامہ دردیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دو مَردوں کو گواہ بنانا مستحب ہے، چنانچہ غیر معروف اور فاسق شخص کی گواہی کالعدم شمار ہو گی، تاہم اگر ولی میں عدل والی صفات نہ ہوں تو وہ عدل کی شرط سے مستثنی ہے، لیکن ولی کا نمائندہ عادل نہیں ہے تو اس کی گواہی بھی کالعدم ہو گی۔ نکاح کی مجلس میں گواہ بنانا استحباب کا درجہ رکھتا ہے، البتہ دخول اور رخصتی کے وقت نکاح کا گواہ بنانا تو واجب اور شرط ہے۔" ختم شد
"الشرح الكبير مع حاشية الدسوقي" (2/216)
جبکہ بعض اہل علم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ محض نکاح کا اعلان کرنا ہی کافی ہے؛ چنانچہ جب نکاح کا اعلان ہو جائے اور نکاح مشہور کر دیا جائے تو بھی نکاح صحیح ہو گا، امام احمد رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" میں کہتے ہیں:
"یہ عمل ابن عمر، حسن بن علی، ابن زبیر، سالم اور حمزہ جو کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے ہیں ان سب نے کیا ہے۔ اسی کے قائل عبد اللہ بن ادریس ، عبدالرحمن بن مہدی، یزید بن ہارون، عنبری، ابو ثور اور ابن المنذر ہیں، یہی موقف امام زہری اور مالک کا ہے کہ اگر اعلان کر دیں تو نکاح ٹھیک ہے۔ ابن المنذر رحمہ اللہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نکاح کے بارے میں دو گواہوں کی حدیث ثابت نہیں ہے۔" ختم شد
یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنایا ہے، اور اسی کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے، مزید کے لیے دیکھیں: "الشرح الممتع"(12/94)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بلا شک و شبہ نکاح کا اعلان ہو جائے تو نکاح درست ہو گا، چاہے نکاح کے دو گواہ نہ بھی ہوں، لیکن نکاح کو چھپایا بھی جائے اور گواہ بھی نہ ہوں تو یہ محل نظر بات ہے۔
چنانچہ گواہ اور اعلان دونوں موجود ہوں تو ایسے نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
لیکن اگر گواہ بھی نہ ہو اور نہ ہی نکاح اعلانیہ کیا جائے تو یہ عمومی علمائے کرام کے ہاں باطل ہے، اس حوالے سے اختلاف اگر ہے بھی سہی تو وہ بہت معمولی ہے۔" ختم شد
"الاختيارات الفقهية" ص177
آپ نے ذکر کیا کہ دو ایسے لوگ گواہ بنے جن کے مسلمان ہونے کے بارے میں یقینی بات نہیں کی جا سکتی چہ جائیکہ ان کے عادل ہونے کی بھی بات کی جائے، تو یہ نکاح کے گواہ کے لیے نا کافی ہے، چنانچہ گواہ بننے والے کے لیے سب سے پہلے تو دونوں گواہ جانے پہچانے ہونے چاہییں پھر وہ مسلمان بھی ہوں اور ان کے عادل ہونے کا بھی علم ہونا ضروری ہے۔
جیسے کہ ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت نکاح کے گواہ بنانے ہوں تو ایسے عادل اور معتبر لوگوں کو گواہ بنایا جائے گا جن کو گواہ بنانے سے طرفین کے حقوق کو تحفظ ملے ۔۔۔ علمائے اسلام اسی موقف کے قائل ہیں۔" ختم شد
"عارضة الأحوذي" (5/19)
اب آپ کے لیے طریقہ کار یہ ہو گا کہ : آپ دو عادل افراد کو گواہ بنائیں اس طرح مالکی فقہائے کرام کے ہاں آپ کا نکاح صحیح ہو گا۔
یا پھر اگر آپ نے اپنی شادی کا اعلان نہیں کیا تو آپ اب اعلان کریں اور اس کے لیے ولیمے کا اہتمام کریں، یا پھر لوگوں کو بلا کر اپنی شادی کی خوشی منائیں یا اسی طرح کا کوئی اور طریقہ کار اپنائیں تو اس طرح آپ کا نکاح صحیح ہو جائے گا۔
تاہم محتاط عمل یہی ہے کہ آپ اپنا عقد نکاح ایک بار پھر کریں اور اس بار آپ کا والد جیسے کہ آپ نے پہلے بھی ذکر کیا وہ لڑکی کے والی بن جائیں، اور دو عادل مسلمانوں کو مجلس عقد میں بلا کر گواہ بنائیں، اور پھر مذکورہ بالا طریقے کے مطابق اپنے ارد گرد لوگوں میں اپنی شادی کا اعلان کریں۔
جدید سماجی رابطے کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے نکاح کرنا صحیح ہے، بشرطیکہ فریقین اور گواہوں کے بارے میں مکمل اطمینان ہو اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کے دھوکے اور کمی کوتاہی کا امکان نہ ہو۔
جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (105531 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔
واللہ اعلم