اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

اگر ننيد گہرى ہو تو وضوء ٹوٹ جاتا ہے

06-03-2007

سوال 36889

گہرى نيند سے وضوء ٹوٹنے كى دليل كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نيند سے وضوء ٹوٹنے كى دليل درج ذيل ہے:

صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے تھے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين دن اور راتيں نہ اتاريں، مگر جنابت سے، ليكن پيشاب اور پاخانہ اور نيند سے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 89 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار ديا ہے.

اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ نيند سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے.

علماء كرام اس ميں اختلاف ركھتے ہيں كہ آيا نيند سے وضوء ٹوٹتا ہے يا نہيں، ذيل ميں اس كے متعلق اقوال بيان كيے جاتے ہيں:

پہلا قول:

مطلقا نيند ناقض وضوء ہے، چاہے نيند قليل ہو يا كثير، اور كسى بھى صفت پر سويا جائے، صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ بالا حديث كى بنا پر اسحاق، مزنى، حسن بصرى، ابن منذر كا يہى قول ہے، كيونكہ اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ نيند نواقض وضوء ميں سے ہے اور اس ميں كسى حالت كى قيد نہيں لگائى گئى.

دوسرا قول:

مطلقا نيند سے وضوء نہيں ٹوٹتا، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں صحابہ كرام رضى اللہ عنہم عشاء كى نماز ادا كرنے كے ليے انتظار كرتے حتى كہ ان كے سر جھك جاتے اور پھر وضوء كيے بغير ہى نماز ادا كرتے تھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 376 ).

اور بزار كى روايت ميں ہے كہ:

" وہ اپنے پہلو ركھ ليتے " يعنى ليٹ جاتے.

ابو موسى اشعرى رضى اللہ عنہ اور سعيد بن مسيب رحمہ اللہ كا يہى قول ہے.

يہ دونوں قول ايك دوسرے كے مقابل ہيں، اور ہر قول والے نے دلائل كا ايك حصہ ليا ہے، ليكن جمہور علماء كرام نے ان دلائل كے مابين جمع كرتے ہوئے كہا ہے كہ:

كچھ معين حالات ميں نيند ناقض وضوء ہوگى، اور ان حالات كے علاوہ ناقض نہيں، ليكن دلائل كے مابين جمع كرنے كے طريقہ ميں ان كا اختلاف پايا جاتا ہے.

تيسرا قول:

اگر تو اپنى مقعد ( نچلا حصہ ) زمين پر ٹكا كر سوئے تو اس كا وضوء نہيں ٹوٹےگا، اور اگر قائم نہ رہے اور ٹك نہ سكے تو وضوء ٹوٹ جائيگا چاہے وہ كسى بھى شكل اور حالت ميں ہو، احناف اور شافعيہ كا مسلك يہى ہے.

ديكھيں: المجموع ( 2 / 14 ).

چوتھا قول:

نيند نواقض وضوء ميں شامل ہے ليكن كھڑے ہو كر يا بيٹھ كر تھوڑى سى نيند سے وضوء نہيں ٹوٹتا، حنابلہ كا مسلك يہى ہے.

ديكھيں: الانصاف ( 2 / 20 - 25 ).

كھڑے ہو كر يا بيٹھ كر تھوڑى نيند كو استثنى كرنے كى وجہ يہ ہے كہ اس حالت ميں وضوء ٹوٹنے كا مخرج مضموم ہو گا تو اس طرح غالب طور پر گمان يہى ہوتا ہے كہ اس كا وضوء نہيں ٹوٹا.

اور بعض علماء كا قول ہے كہ:

ہر حالت ميں زيادہ نيند وضوء توڑ دے گى، ليكن قليل سى نيند نہيں امام مالك رحمہ اللہ كا قول يہى ہے، اور امام احمد سے ايك روايت بھى تو اس طرح يہ پانچواں قول ہوا.

قليل اور كثير نيند ميں فرق يہ ہے كہ:

كثير اور زيادہ نيند وہ گہرى نيند ہے جس ميں انسان كو وضوء ٹوٹنے كا احساس تك نہيں ہوتا، اور قليل نيند وہ ہے جس ميں اگر انسان كا وضوء ٹوٹے تو اسے وضوء ٹوٹنے كا احساس ہو جاتا ہے، مثلا ہوا خارج ہو تو اسے علم ہو جاتا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ہمارے معاصر علماء كرام ميں سے الشيخ ابن باز اور ابن عثيمين رحمہم اللہ اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے يہى قول اختيار كيا ـ اور صحيح بھى يہى ہے ـ تو اس طرح ان سب دلائل كو جمع كيا جا سكتا ہے.

صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ نيند سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں وارد ہے كہ نيند سے وضوء نہيں ٹوٹتا.

تو اس طرح انس رضى اللہ عنہ كى حديث كو قليل اور تھوڑى سى نيند پر محمول كيا جائيگا جس ميں انسان كو وضوء ٹوٹنے كا احساس اور شعور ہو جاتا ہے، اور صفوان رضى اللہ عنہ كى حديث كو گہرى نيند پر محمول كيا جائيگا جس ميں انسان كو وضوء ٹوٹنے كا احساس اور شعور نہيں ہوتا.

اس كى تائيد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان كرتا ہے:

" آنكھيں دبر كا تسمہ ہيں، جب آنكھيں سو جائيں تو تسمہ ڈھيلا ہو جاتا ہے "

مسند احمد ( 4 / 97 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4147 ) ميں اسے صحيح كہا ہے.

الوكاء اس تمسہ يا دھاگے كو كہتے ہيں جس سے مشكيزہ باندھا جاتا ہے.

اور " السہ " دبر كو كہتے ہيں.

حديث كا معنى يہ ہے كہ:

بيدارى دبر كا تسمہ ہيں، يعنى اس سے خارج ہونے والى اشياء كى محافظ ہيں، كيونكہ جب تك انسان بيدار رہے گا وہ دبر سے خارج ہونے والى چيز كا محسوس كرےگا، اور جب سو جائے تو تسمہ كھل جائيگا.

الطيبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب بيدار ہو جائے تو اپنے پيٹ ميں جو كچھ ہے اس پر كنٹرول كر ليتا ہے، اور جب سو جائے تو اس كا اختيار ختم ہو جاتا ہے جس كى بنا پر اس كے جوڑ ڈھيلے پڑ جاتے ہيں " انتہى. ماخوذ از عون المعبود.

اس ليے جب انسان تسمہ پر كنٹرول نہ كر سكتا ہو وہ اس طرح كہ جب اس كا وضوء ٹوٹے تو اسے احساس بھى نہ ہو تو اس حالت كى نيند وضوء توڑ دے گى وگرنہ نہيں.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 275 ).

سبل السلام ميں الصنعانى رحمہ اللہ رقمطراز ہيں:

" اقرب يہى ہے كہ: صفوان رضى اللہ عنہ كى حديث كى بنا پر نيند سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ..... ليكن اس حديث مين نيند كا لفط مطلق بيان ہوا ہے اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں صحابہ كرام كے سونے اور نيند كا بيان ہے، كہ وہ چاہے خراٹے بھى ليتے تو بھى وضوء نہيں كرتے تھے، اور وہ اپنے پہلو كے بل بھى ليٹ ليتے تھے، يہ كہ وہ چوكنے رہتے تھے، اصل يہى ہے كہ ان كى قدر و منزلت اور شان بہت ہے، اور وہ وضوء توڑنے والى اشياء سے جاہل نہ تھے، خاص كر انس رضى اللہ تعالى عنہ نے صحابہ كرام سے مطلقا بيان كيا ہے.

اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ ان ميں علماء اور دينى مسائل كا علم ركھنے والے بھى تھے اور خاص كر نماز كے امور اور مسائل جو كہ دين اسلام كے عظيم ركن ميں سے ہے كا بھى علم ركھتے تھے، اور خاص كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ نماز ادا كرنے كا انتظار كرنے والے صحابہ كرام ميں جليل القدر صحابہ بھى تھے.

جب ايسا ہى ہے تو پھر صفوان رضى اللہ عنہ كى مطلق حديث كو گہرى نيند كے ساتھ مقيد كيا جائيگا جس كى بنا پر شعور اور احساس اور ادراك جاتا رہے، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كا خراٹے اور پہلو كے بل ليٹنا بيان كرنا اور انہيں بيدار كرنے كو گہرى نيند نہ ہونے كى تاويل كى جائيگى، بعض اوقات تو ابتدائى نيند ميں ہونے والا شخص بھى خرٹے لينے لگتا ہے، اور پہلو كے بل ليٹنے سے گہرى نيند سونا لازم نہيں آتا " انتہى مختصرا.

ديكھيں: سبل السلام ( 1 / 97 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ مجموع الفتاوى ميں نواقض وضوء كى تعداد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" اگر نيند زيادہ ہو كہ اگر سوئے ہوئے شخص كا وضوء ٹوٹ جائے تو اسے شعور تك نہ ہو، اور اگر نيند قليل اور تھوڑى سى ہو كہ اگر وضوء ٹوٹ جائے تو سوئے ہوئے شخص كو خود ہى وضوء ٹوٹنے كا علم ہو جائے تو اس نيند سے وضوء نہيں ٹوٹےگا.

اس ميں كوئى فرق نہيں كہ سويا ہوا شخص ليٹ كر سوئے يا بيٹھے ہوئے سہارا لگا كر يا بغير سہارا كے بيٹھ كر، اہم يہ ہے كہ دل حاضر ہونا چاہيے، اگر تو يہ حالت ہو كہ اگر اس كا وضوء ٹوٹے تو سوئے ہوئے شخص كو خود ہى اس كا علم ہو جائے تو اس نيند سے وضوء نہيں ٹوٹتا.

اور اگر وہ ايسى حالت ميں ہو كہ وضوء ٹوٹے اور وہ خود اس كا شعور نہ ركھ سكے اور اسے وضوء ٹوٹنے كا علم ہى نہ ہو تو اس كے ليے وضوء كرنا ضرورى ہے، اس ليے كہ نيند بذاتہ ناقض وضوء نہيں، بلكہ وضوء ٹوٹنے كا گمان ہے، تو اگر حدث يعنى وضوء ختم ہونے كى نفى ہو كہ اگر انسان كا وضوء ٹوٹ جائے تو اسے اس كا شعور ہو تو اس نيند سے وضوء نہيں ٹوٹےگا.

بذاتہ نيند نواقض وضوء ميں شامل نہ ہونے كى دليل يہ ہے كہ قليل اور تھوڑى سى نيند وضوء نہيں توڑتى، اور اگر نيند نواقض وضوء ميں شامل ہوتى تو پھر قليل يا كثير دونوں حالتوں ميں وضوء ٹوٹ جاتا جيسا كہ پيشاب قليل ہو يا كثير وضوء توڑ ديتا ہے " انتہى.

اور فتاوى ابن باز رحمہ اللہ ميں بھى اسى طرح كى كلام ہے:

ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر نيند گہرى ہو كہ شعور اور احساس زائل ہو جائے تو اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، اس كى دليل جليل القدر صحابى صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل روايت ہے:

" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم حكم ديا كرتے تھے كہ ہم سفر ميں تين دن اور تين راتيں اپنے موزے نہ اتاريں، مگر جنابت سے، ليكن پيشاب اور پاخانہ اور نيند سے "

اسے ترمذى نے روايت كيا ہے اور الفاظ بھى ترمذى كے ہيں، اور ابن خزيمہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اس ليے بھى كہ معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" آنكھيں دبر كا تسمہ ہيں، تو جب آنكھيں سو جائيں تسمہ ڈھيلا ہو جاتا ہے "

اسے احمد اور طبرانى نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند ميں ضعف پايا جاتا ہے، ليكن اس كے كئى ايك شواہد ہيں جن سے اسے تقويت حاصل ہوتى ہے، مثلا مذكورہ بالا صفوان رضى اللہ عنہ كى حديث، تو اس طرح يہ حديث حسن درجہ كى ہوئى.... ..

رہا مسئلہ اونگھ كا تو اس سے وضوء نہيں ٹوٹتا كيونكہ اونگھ آنے سے شعور اور احساس ختم نہيں ہوتا، تو اس طرح اس باب ميں وارد احاديث كے مابين جمع اور تطبيق ہو جاتى ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 10 / 144 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كہتے ہيں:

" گہرى نيند وضوء ٹوٹنے كا مظنہ و جگہ ہے اس ليے جو شخص بھى مسجد يا كہيں اور گہرى نيند سو گيا اس كے ليے دوبارہ وضوء كرنا ضرورى ہے، چاہے وہ بيٹھ كر سوئے يا كھڑے ہو كريا ليٹ كر، اور چاہے اس كے ہاتھ ميں تسبيح ہو يا نہ ہو، ليكن اگر نيند گہرى نہ ہو مثلا ايسى اونگھ جس سے شعور اور احساس زائل نہيں ہوتا تو اس كے ليے دوبارہ وضوء كرنا ضرورى نہيں، كيونكہ اس كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مذكورہ بالا تفصيل كے مطابق صحيح احاديث وارد ہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 262 ).

كميٹى كے علماء كرام كا يہ بھى كہنا ہے:

" خفيف اور ہلكى سى نيند جس سے شعور اوراحساس زائل نہ ہو اس سے وضوء نہيں ٹوٹتا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ بعض اوقات نماز عشاء ميں اتنى تاخير كرتے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كے سر جھك جاتے اور وہ وضوء كيے بغير ہى نماز ادا كرتے تھے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 263 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ المجموع للنووى ( 2 / 14 - 24 ) اور مواہب الجليل ( 1 / 312 ) اور الشرح الممتع ابن عثيمين ( 2 / 189 - 191 ) بھى ديكھيں.

واللہ اعلم .

نواقض وضو
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔