"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اس بات كى طرف متنبہ رہنا چاہيے كہ نذر ماننى مكروہ ہے اس كى دليل مندرجہ ذيل مرفوع حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نذر نہ مانا كرو، كيونكہ نذر تقدير سے كوئى فائدہ نہيں ديتى، بلكہ اس سے تو بخيل سے نكالا جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6609 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1640 ) يہ الفاظ مسلم شريف كے ہيں.
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ بنى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر سے منع كيا اور فرمايا:
" نذر كوئى خير نہيں لاتى بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1639 ).
بعض اوقات انسان نذر تو مان ليتا ہے ليكن وہ اسے پورا نہيں كرتا، تو وہ اپنے آپ كو مشكل اور حرج ميں ڈال كر گنہگار ہوتا ہے.
اور نذر كے معاملہ ميں سستى كرنا بہت خطرناك معاملہ ہے، اور خدشہ ہے كہ نذر ماننے والا مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كے حكم ميں نہ آ جائے:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور ان ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو اللہ تعالى سے عہد كرتے ہيں كہ اگر تو نے ہميں اپنے فضل سے نوازا تو ہم تيرى راہ ميں صدقہ و خيرات كرينگے اور نيك و صالح لوگوں ميں ہونگے، اور جب اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے نوازتا ہے تو وہ بخل كرنے لگتے ہيں، اور وہ اعراض كرتے ہوئے پھر جاتے ہيں، تو اللہ تعالى اس كى سزا ميں ان كے دلوں ميں نفاق ڈال دے گا اس دن تك جب وہ اس سے مليں گے، اس كے سبب كہ انہوں نے وعدہ كرنے كے بعد اللہ تعالى سے وعدہ خلافى كى، اور جو وہ كذب بيانى كرتے تھے التوبۃ ( 75 - 77 ).
سستى و كاہل كى خطرناكى كے متعلق سوال نمبر ( 42178 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
اور سوال كے متعلق گزارش يہ ہے كہ: آپ نے جو نذر مانى تھى وہ واجب نذر ميں شامل ہوتى ہے، جس كا پورا كرنا آپ پر واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت كرنے كى نذر مانى وہ اپنى نذر پورى كرے، اور جس نے اللہ تعالى كى نافرمانى اور معصيت كرنے كى نذر مانى تو وہ اس كى نافرمانى نہ كرے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6696 ).
اس بنا پر آپ پر نذر پورى كرنا لازم ہے، اور آپ نے جن دنوں كے روزے نہيں ركھے ان كى قضاء ميں روزے ركھيں، اور اس كے ساتھ آپ پر قسم كا كفارہ بھى لازم آتا ہے، اور ان جن ايام كے آپ نے روزے نہيں ركھے ان ميں آپ كے ليے ايك كفارہ ہى كافى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى ہر جمعرات كو روزہ ركھنے كى نذر ماننے اور روزے شروع كيے اور پھر كئى ايام نہ ركھنے والے شخص كے بارہ ميں كہتے ہيں:
" وہ اپنى نذر كى قضاء كرے اور كفارہ ادا كرے.... اور اگر اس سے بہت زيادہ ايام فوت ہو گئے جن ميں وہ روزے نہ ركھ سكا ہو تو ان سب ايام كا اس پر ايك ہى كفارہ لازم آتا ہے، جب وہ كفارہ ادا كر دے اور اس كے بعد پھر اس كے كچھ روزے رہ جائيں تو اس پر دوبارہ كفارہ لازم ہو گا. امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے يہى بيان كيا ہے. اھـ
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 13 / 648 ).
اور آپ كے ليے دوپہر كے كھانے كى دعوت ايسا عذر نہيں جو آپ كے ليے روزہ نہ ركھنے كى اباحت شمار ہو، اور آپ نذر پورى نہ كريں، بلكہ آپ كو چاہيے كہ انہيں اپنى نذر كے متعلق بتا ديں تا كہ ان كى دعوت ميں نہ جانے كا عذر معلوم ہو سكے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 36800 ) اور ( 38934 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .