الحمد للہ.
اول:
نذر كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم:
نذر معلق: معلق نذر يہ ہے كہ نذر كو كسى چيز كے حصول پر معلق كر ديا جائے، مثلا كوئى شخص يہ كہے: اگر اللہ تعالى نے مجھے شفايابى سے نوازا تو ميں اتنا صدقہ كرونگا، يا پھر ميں اتنے روزے ركھوں گا، وغيرہ
دوسرى قسم:
نذر منجز: ( يعنى جو معلق نہ ہو ) مثلا كئى شخص يہ كہے كہ: ميرے ذمہ ہے كہ ميں اللہ كے ليے اتنے روزے ركھوں گا.
اور نذر كى يہ دونوں قسميں پورى كرنا واجب ہے، جب نذر مانى ہوئى چيز اطاعت و فرمانبردارى كا فعل ہو.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت كرنے كى نذر مانى اسے وہ نذر پورى كرنى چاہيے، اور جس نے اللہ تعالى كى نافرمانى اور معصيت كى نذر مانى تو وہ اللہ تعالى كى نافرمانى اور معصيت نہ كرے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6696 ).
اور معلق نذر كا پورا كرنا منجز نذر پورى كرنے سے زيادہ شديد ہے ـ اگرچہ يہ دونوں قسميں ہى پورى كرنا واجب ہيں جيسا كہ اوپر بيان بھى ہوا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر كوئى شخص يہ كہے كہ: اگر اللہ تعالى نے مجھے سلامت ركھا اور بچا ليا تو ميں صدقہ كرونگا، يا ميں ضرور صدقہ كرونگا، تو يہ ايك وعدہ ہے جو اس نے اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ كيا ہے، لہذا اسے چاہيے كہ وہ اپنے اس وعدہ كو پورا كرے، وگرنہ وہ اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان ميں داخل ہو گا:
تو اللہ تعالى اس كى سزا ميں ان كے دلوں ميں نفاق ڈال دے گا اس دن تك جب وہ اس سے مليں گے، اس كے سبب كہ انہوں نے وعدہ كرنے كے بعد اللہ تعالى سے وعدہ خلافى كى، اور جو وہ كذب بيانى كرتے تھے التوبۃ ( 76 ).
تو بندے كا اپنے پروردگار اور رب سے وعدہ نذر ہے جو اس كے ليے پورا كرنا واجب ہے؛ اور معلق نذر تو پورى كرنے ميں اور بھى زيادہ لازم ہے كہ وہ ابتدا ميں اس طرح كہے: ميرے ذمہ اللہ كے ليے اتنا ہے.
اور اس كے خلاف كرنا اور وعدہ پورا نہ كرنے كا انجام دل ميں نفاق پيدا ہونا ہے. اھـ تصرف كے ساتھ
دوم:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے لوگوں كى مذمت فرمائى ہے جو نذر مان كر اسے پورا نہيں كرتے، امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا سب سے بہتر ميرا دور ہے، اور پھر اس كے بعد والا، اور پھر ان كا دور جو اس كے بعد والا، اور پھر ان لوگوں كا دور جو ان سے مليں ہونگے، عمران رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
مجھے نہيں معلوم كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے دور كے بعد دو دور كہے يا تين دور ـ
پھر ان كے بعد ايسى قوم ہو گى جو گواہى دينگے، اور ان سے گواہى طلب نہيں كى جائےگى، وہ خيانت كرينگے، اور ان ميں امانت نہيں رہے گى، اور وہ نذريں مانيں گے، ليكن نذريں پورى نہيں كرينگے، اور ان ميں موٹاپا ظاہر ہو گا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2535 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث ميں نذر پورى كرنے كا وجوب پايا جاتا ہے، اور نذر پورى كرنا بغير كسى اختلاف كے واجب ہے. اھـ
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول: " اور ان ميں موٹاپا ظاہر ہو گا " كا معنى يہ ہے كہ: يہ لوگ دينى معاملات ميں اہتمام كرنے سے غافل ہونگے اور انہيں كھانے پينے اور راحت وآرام اور سونے كے علاوہ كسى اور كا فكر ہى نہيں ہو گا.
اور وہ موٹاپا مذموم ہے جو خود اپنے ہاتھوں سے كيا جائے، اور جو خلقتا اور پيدائشى موٹاپا ہو وہ مذموم نہيں.
واللہ تعالى اعلم.
ديكھيں: عون المعبود شرح ابو داود حديث نمبر ( 4657 ).
سوم:
نذر پورى نہ كرنا منافقوں كى صفات ميں سے ہے:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور ان ميں ( يعنى منافقوں ميں سے ) كچھ ايسے بھى ہيں جو اللہ تعالى سے عہد كرتے ہيں كہ اگر تو نے ہميں اپنے فضل سے نوازا تو ہم تيرى راہ ميں صدقہ و خيرات كرينگے اور نيك و صالح لوگوں ميں ہونگے، اور جب اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے نوازتا ہے تو وہ بخل كرنے لگتے ہيں، اور وہ اعراض كرتے ہوئے پھر جاتے ہيں، تو اللہ تعالى اس كى سزا ميں ان كے دلوں ميں نفاق ڈال دے گا اس دن تك جب وہ اس سے مليں گے، اس كے سبب كہ انہوں نے وعدہ كرنے كے بعد اللہ تعالى سے وعدہ خلافى كى، اور جو وہ كذب بيانى كرتے تھے، كيا وہ يہ نہيں جانتے كہ اللہ تعالى كو ان كے دل كا بھيد اور ان كى سرگوشى سب معلوم ہے، اور اللہ تعالى غيب كى تمام باتوں سے خبردار ہے التوبۃ ( 75 - 77 ).
چہارم:
اور جس شخص نے نذر مانى اور پورى نہ كى اور اللہ تعالى سے كردہ وعدہ پورا نہ كرنے والے كى سزا يہ ہے كہ:
اس كے متعلق خدشہ ہے كہ اللہ تعالى اس كى سزا ميں اس كے دل ميں نقاق ڈال دے، تو وہ اللہ تعالى ملاقات كے وقت منافق ہو، تو اس وقت وہ خسارہ اور نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہو گا.
جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا ہے:
( تو اللہ تعالى اس كى سزا ميں ان كے دلوں ميں نفاق ڈال دے گا اس دن تك جب وہ اس سے مليں گے، اس كے سبب كہ انہوں نے وعدہ كرنے كے بعد اللہ تعالى سے وعدہ خلافى كى، اور جو وہ كذب بيانى كرتے تھے )التوبۃ ( 76 ).
سعدى رحمہ اللہ تعالى اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
يعنى: ان منافقوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جنہوں نے اللہ تعالى سے عہد وميثاق كيا كہ
( اگر اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے دے گا )
دنيا كا مال و متاع ہميں زيادہ دے گا اور اس ميں وسعت كرے گا تو:
( ہم ضرور صدقہ كرينگے اور نيك و صالح لوگوں ميں سے ہو جائينگے)
تو ہم صلہ رحمى كرينگے، اور مصائب و تكاليف ميں ايك دوسرے كى مدد و تعاون كرينگے، اور نيك و صالح اعمال كرينگے.
( تو جب اللہ تعالى نے انہيں اپنے فضل سے عطا كر ديا )
تو انہوں نے جو كچھ كہا تھا اسے پورا نہ كيا بلكہ:
( اس كے ساتھ بخل كرنے لگے، اور منہ موڑ كر )
اطاعت و فرمانبردارى سے پھر گئے
( اور وہ اعراض كرنے والے تھے )
يعنى: وہ خير اور بھلائى كى طرف التفات كيے بغير ہى چل نكے، لہذا جب انہوں نے اللہ تعالى سے كيا ہوا وعدہ پورا نہ كيا تو اللہ تعالى انہيں اس كى سزا ديتے ہوئے
( انہيں اس كى سزا ان كے دل ميں نفاق ڈال ديا )
وہ نفاق مستمر رہے گا
( اس دن تك جب وہ اس سے مليں گے بسبب اس كے كہ جو انہوں نے اللہ سے وعدہ خلافى كى اور جو وہ كذب بيانى كرتے تھے ).
لہذا مومن شخص كو اس شنيع وصف سے بچنا چاہيے كہ وہ اپنے رب سے يہ وعدہ كرے كہ اگر اس كا فلاں مقصد پورا ہو گيا تو وہ ايسے ايسے كرے گا اور پھر وہ اس وعدہ كو پورا نہ كرے، تو ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس كى سزا ميں اس كے دل ميں نفاق ڈال دے جس طرح انہيں سزا دى.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى فرمايا ہے صحيحين ميں حديث ہے:
" منافق كى تين نشانياں ہيں: جب بات كرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اور جب معاہدہ كرتا ہے تو غدارى كرتا ہے، اور جب وعدہ كرتا ہے تو وعدہ خلافى كرتا ہے "
تو يہ منافق جس نے اللہ تعالى سے وعدہ اور معاہدہ كيا كہ اگر اللہ تعالى اسے اپنے فضل سے نوازے گا تو وہ صدقہ كرے گا اور نيك و صالح لوگوں ميں سے ہو گا، اس نے بات كى اور جھوٹ بولا، اور معاہدہ كيا اور اسے توڑ ديا، اور وعدہ كيا تو وعدہ خلافى كى، اور اسى ليے جن سے ايسا فعل صادر ہوتا ہے انہيں اس عمل پر وعيد سنائى گئى ہے:
( كيا انہيں علم نہيں كہ اللہ تعالى ان كے سينہ كے بھيد اور سوگوشياں جانتا ہے، اور يقينا اللہ تعالى غيب كى باتوں كا خبردار ہے ).
اور وہ انہيں عنقريب ان كے ان اعمال كا بدلہ دے گا جنہيں اللہ تعالى جانتا ہے. اھـ
ديكھيں: تفسير السعدى ( 546 ).
واللہ اعلم .