"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
شرعى طور پر رمضان كا مہينہ چاند كى رؤيت كے بغير داخل نہيں ہوتا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ كا فرمان ہے:
" چاند ديكھ كر روزہ ركھو اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1909 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1081 )
اور مہينہ كے شروع ہونے ميں فلكى حساب كا كوئى اعتبار نہيں كيا جائے گا.
اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ ہر ايك ملك كا مطلع دوسرے ملك كے مطلع سے مختلف ہے ـ اور خاص كر ان دور كے ممالك كا مطلع ـ تو اس طرح ان مطلع كے مختلف ہونے كوئى اختلاف نہيں ہے لہذا اس ميں كسى كو بھى جھگڑنا نہيں چاہيے.
بلكہ اختلاف تو اس بات ميں ہے كہ آيا ايك ملك كے مطلع كا دوسرے ملك كے مطلع سے مختلف ہونے كو ماہ مبارك شروع ہونے ميں كوئى اثر ہے يا نہيں.
دوم:
غير اسلامى ممالك ميں بسنے والے مسلمانوں كى اگر كوئى شرعى كميٹى اور مجلس ہے جس پر وہ مہينہ كے شروع اور اختتام ميں شرعى رؤيت ہلال كے بارہ ميں اعتماد كرتے ہوں، تو مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا فتوى ہے كہ ان كے ليے يہ مجلس اسلامى حكومت كا درجہ ركھتى ہے، لہذا انہيں مہينہ كے شروع اور اختتام ميں اس كى بات ماننا ہو گى.
اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 1248 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
ليكن اگر ان كى كوئى شرعى كميٹى اور مجلس نہيں تو ان كے ليے اس ميں كوئى حرج نہيں كہ وہ ثقہ حكومت كى پيروى كريں، جو كہ شرعى رؤيت پر عمل كرتى ہو نا كہ فلكى حساب و كتاب پر، تو اس طرح وہ اس حكومت كے ساتھ رمضان كى ابتدا اور عيد الفطر مناسكتے ہيں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
سپين ميں بسنے والے مسلمانوں كا حرمين شريفين كے ساتھ رمضان المبارك كے روزے ركھنے كے متعلق كيا حكم ہے؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" سپين ميں رہتے ہوئے آپ نے ہمارے ساتھ رمضان المبارك كے روزے ركھنے اور ہمارى عيد كے ساتھ عيد الفطر منانے كا جو ذكر كيا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" چاند ديكھ كر روزہ ركھو، اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر كرو، اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو پھر تيس كى گنتى مكمل كرو "
اور يہ سارى امت مسلمہ كے ليے ہے، اور حرمين كا علاقہ اور يہاں كى حكومت اقتدا و پيروى كى زيادہ حقدار ہے، كيونكہ يہاں شريعت اسلاميہ نافذ ہے اور اس پر عمل كى مكمل كوشش اورجدوجھد كى جاتى ہے، اللہ تعالى اس حكومت كو اور بھى زيادہ توفيق اور ہدايت سے نوازے.
اور اس ليے بھى كہ آپ ايسے ملك ميں بستے ہيں جہاں كى حكومت اسلامى قوانين نافذ نہيں كرتى، اور وہاں كے باشندوں كو اسلام كى كوئى پرواہ نہيں ہے" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز رحمہ اللہ ( 15 / 105 ).
اس مسئلہ كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1226 ) اور ( 12660 ) اور ( 1602 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .