"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميرى بيوى كے ذمہ گزشتہ رمضان المبارك ميں ماہوارى كى بنا پر چھوڑے ہوئے رزوں كى قضاء تھى، اور آنے والے رمضان سے قبل قضاء سے قبل حاملہ ہو گئى، اس كى معالج ليڈى ڈاكٹر نے اس كى كمزورى اور بچے كو ضرر كے انديشے سے اسے حمل ميں بالكل روزہ ركھنے سے منع كر ديا، اور دودھ پلانے كى مدت ميں بھى اس كا احتمال ہے، اس ليے وہ ان ايام كے روزے نہيں ركھ سكتى، اب اسے ان ايام كے متعلق كيا كرنا ہو گا؟
اور رمضان المبارك سے قبل اگر وہ قضاء كے روزے ركھنے كى استطاعت نہ ركھے تو اسے كيا كرنا ہو گا ؟
الحمد للہ.
اللہ سبحانہ وتعالى نے كسى شرعى عذر كى بنا پر چھوڑے ہوئے روزوں كى قضاء ميں آئندہ رمضان شروع ہونے تك وسعت ركھى ہے، ليكن مسلمان كے شايان شان نہيں كہ وہ اس قضاء ميں تاخير كرے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے اسے كوئى عارضہ لاحق ہو جائے، يا پھر اس ميں تبديلى آجائے اور اس كے ليے روزے ركھنے مشكل ہو جائيں، يا وہ روزے ركھ ہى نہ سكے، اور خاص كر عورتيں تو حمل حيض اور نفاس كے مسائل سے دوچار رہتى ہيں.
اور جس نے بھى بغير كسى عذر كے قضاء ميں اتنى تاخير كر دى كہ اس كے ليے وقت تنگ ہو جائےاور شعبان بھى گزر جائے اور اس نے قضاء نہ كى ہو تو وہ گنہگار ہے، اور اگر معذور ہو تو اس پر كوئى گناہ نہيں، ليكن دونوں حالتوں ميں اسے دوسرے رمضان كے بعد قضاء كرنا ہو گى، اور اہل علم نے اس پر قضاء كے ساتھ فديہ بھى واجب كيا ہے، كہ ہر دن كے بدلے وہ ايك مسكين كو كھانا دے، اور اسے ادا كرنے ميں زيادہ احتياط ہے, وگرنہ اس كے ليے قضاء ہى كافى ہے.
مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 26865 ) اور ( 21710 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
اگر كوئى شخص دوسرا رمضان شروع ہونے تك روزوں كى قضاء نہ كر سكے تو اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اہل علم كے ہاں مشہور يہى رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء دوسرے رمضان تك مؤخر كرنا جائز نہيں، كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" مجھ پر رمضان المبارك كے روزے ہوتے اور ميں ان كى قضاء شعبان كے علاوہ نہيں كر سكتى تھى"
يہ اس كى دليل ہے كہ دوسرے رمضان كے بعد رخصت نہيں ہے، اور اگر وہ بغير كسى عذر كے ايسا كرتا ہے تو وہ گنہگار ہے، اور اسے دوسرے رمضان كے بعد قضاء ميں جلدى كرنى چاہيے، علماء كرام كا اس ميں اختلاف ہے كہ آيا اس پر فديہ لازم ہے كہ نہيں؟
صحيح يہى ہے كہ اس پر كھانا دينا لازم نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے.
تو اللہ سبحانہ وتعالى نے قضاء كے علاوہ كچھ واجب نہيں كيا.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 357 ).
اور شيخ رحمہ اللہ تعالى سے يہ سوال بھى كيا گيا:
ايك عورت نے گزشتہ رمضان ميں روزے چھوڑے اور شعبان كے آخر ميں ان كى قضاء كرنا شروع كى تو اسے ماہوارى آگئى اور رمضان المبارك شروع ہو گيا، اور اس كا ايك روزہ باقى رہا تو اس پر كيا واجب ہوتا ہے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
جس دن كى قضاء رمضان سے قبل نہيں كر سكى وہ اس رمضان كے ختم ہونے كے بعد پچھلے رمضان كے روزے كى قضاء كرے.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 358 ).
اور شيخ رحمہ اللہ تعالى سے يہ بھى دريافت كيا گيا:
ايك عورت نے نفاس كى بنا پر رمضان كے روزے نہ ركھے، اور دودھ پلانے كى بنا پر دوسرا رمضان شروع ہونے تك وہ ان كى قضاء بھى نہ كر سكى تو اس پر كيا واجب ہو گا ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اس عورت كو ان ايام كے بدلے روزے ركھنا ہونگے چاہے وہ دوسرے رمضان كے بعد ہى ركھے، كيونكہ وہ عذر كى بنا پر روزوں كى قضاء نہيں كر سكى، ليكن اگر اس پر كوئى مشقت نہ ہو تو وہ سرديوں ميں قضاء كے روزے ركھ لے چاہے ايك دن چھوڑ كر روزہ ركھے، كيونكہ يہ اس پر لازم ہيں، اور اگر وہ دودھ پلا رہى ہے تو اسے دوسرے رمضان كے آنے سے قبل قضاء كى حرص اور كوشش كرنى چاہيے، ليكن اگر ايسا نہ ہو سكے تو وہ دوسرے رمضان تك مؤخر كر سكتى ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 360 ).
جواب كا خلاصہ:
ان ايام كى قضاء آپ كى بيوى كے ذمہ قرض ہے، جب بھى اس كے ليے ممكن ہو وہ ان ايام كى قضاء ميں روزے ركھے.
واللہ اعلم .