"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خاوند كى موجودگى ميں بيوى كو بغير اجازت روزہ ركھنے سے منع فرمايا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عورت كے ليے حلال نہيں كہ اس كا خاوند موجود ہو اور وہ اس كى اجازت كے بغير روزہ ركھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5195 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 1026 )
اور مسند احمد كے لفظ ہيں:
" عورت كسى ايك دن بھى خاوند كى موجودگى ميں اس كى اجازت كے بغير روزہ نہيں ركھ سكتى "
مسند احمد حديث نمبر ( 9815 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1052 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ نفلى اور مندوب روزے پر محمول ہے، جس كے ليے كوئى معين وقت نہيں، اور يہ نہى تحريم كے ليے ہے، ہمارے اصحاب نے يہى بيان كيا ہے، اور اس كا سبب يہ ہے كہ خاوند كو سب دنوں ميں بيوى سے استمتاع يعنى نفع حاصل كرنے كا حق حاصل ہے، اور اس ميں اس كا حق فورى طور پر واجب ہوتا ہے، لہذا وہ نفلى روزے سے فوت نہيں ہو سكتا، نہ ہى واجب ميں تاخير سے"
شرح مسلم ( 7 / 115 ).
دوم:
اور عورت كے ليے نہى اور مرد كے ليے نہى كے وارد نہ ہونے كے سبب سے يہ حكمت استنباط كى جا سكتى ہے كہ:
1 - بيوى كے مقابلے ميں خاوند كا حق بيوى پر زيادہ متاكد ہے، لہذا اس ميں خاوند كو بيوى پر قياس كرنا صحيح نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" خاوند كا بيوى پر حق بيوى كے حق سے زيادہ عظيم اور بڑا ہے، كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور مردوں كو ان پر فضيلت حاصل ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اگر ميں كسى كو كسى كے ليے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو ميں عورتوں كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوندوں كو سجدہ كريں؛ كيونكہ اللہ تعالى نے ان كے ليے عورتوں پر حق ركھا ہے" اسے ابو داود نے روايت كيا ہے. انتہى
ديكھيں: المغنى لابن قدمہ المقدسى ( 7 / 223 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" عورت پر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حق كے بعد خاوند كا حق ہے، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر ميں كسى كو كسے كے سامنے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو بيوى كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرتى، كيونكہ خاوند كا اس پر عظيم حق ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 3 / 144 ).
2 - غالب طور پر خاوند ہى جماع كا مطالبہ كرتا ہے، اور عورت مطلوب يعنى اس سى مطالبہ كيا جاتا ہے، لہذا اكثر اور غالب خاوند كى رغبت ہى بيوى كى طرف ہوتى ہے، اس لحاظ سے يہ مناسب ہوا كہ عورت نفلى روزہ ركھنے سے قبل خاوند سے اجازت لے ہو سكتا ہے، اسے اس كے ساتھ جماع كرنے كى رغبت ہو.
2 - مردوں كى شھوت عورتوں كى شھوت سے زيادہ اور عظيم ہوتى ہے اس ليے مرد كو چار بيوياں كرنے كى اجازت ہے، اور عورتوں ميں ايسا نہيں، اور نہ ہى انہيں اس كى اجازت ہے، اور اس ليے بھى كہ مرد كى جماع سے صبر كرنے كى طاقت عورتوں سے كمزور ہے، اور اسى ليے انہيں اجازت لينے كا كہا گيا ہے اور جب خاوند جماع كا مطالبہ كرے اور بيوى اسے منع كردے تو اس كے وعيد آئى ہے.
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ كے پاس ايك عورت آ كر كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم جب ميں نماز پڑھتى ہوں تو مجھے مارتا ہے، اور روزہ ركھتى ہوں تو ميرا خاوند صفوان بن المعطل مجھ سے روزہ افطار كروا ديتا ہے، اور طلوع شمس سے قبل نماز ادا نہيں كرتا، راوى كہتے ہيں كہ صفوان ان كے پاس تھے وہ كہتے ہيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كچھ اس عورت نے كہا اس كے بارہ ميں صفوان سے پوچھا تو وہ كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس كا يہ كہنا كہ جب ميں نماز پڑھتى ہوں تو مجھے مارتا ہے، يہ اس ليے كہ وہ دو سورتيں پڑھتى ہے اور ہميں ايسا كرنے سے منع كيا گيا ہے، راوى كہتے ہيں، تو اس نے كہا اگر ايك سورۃ ہوتى تو لوگوں كو كافى تھى.
اور اس كا يہ كہنا كہ: وہ ميرا روزہ كھلوا ديتا ہے، كيونكہ وہ روزے ركھتى ہى جاتى ہے، اور ميں جوان آدمى ہوں، صبر نہيں كر سكتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس دن فرمايا: خاوند كى اجازت كے بغير كوئى عورت روزہ نہ ركھے.
اور اس كا يہ كہنا كہ: ميں طلوع شمس سے قبل نماز نہيں پڑھتا، ہم ايسے گھر والے ہيں جن كے بارہ يہ معلوم ہو چكا ہے، ہم سورج طلوع ہونے سے پہلے بيدار ہى نہيں ہو سكتے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جب تم بيدار ہو جاؤ تو نماز ادا كر ليا كرو"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2459 ) اس حديث كو ابن حبان ( 4 / 354 ) نے صحيح كہا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے الاصابۃ ( 3 / 441 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 7 / 65 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
شيخ محمد بن صالح العيثمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور خاوند كے بيوى پر حقوق ميں يہ بھى ہے كہ:
بيوى كوئى ايسا عمل نہ كرے جس سے خاوند كا كمال استمتاع ضائع ہوتا ہو، حتى كہ اگر يہ نفلى عبادت بھى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كسى عورت كے ليے حلال نہيں كہ اس كا خاوند موجود ہو اور وہ اس كى اجازت كے بغير روزہ ركھے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير كسى كو اس كے گھر ميں آنے كى اجازت نہ دے "
ديكھيں: حقوق دعت اليھا الفطرۃ و قررتھا الشريعۃ ( 12 ).
اور شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ تعال كہتے ہيں:
عورت كے ليے خاوند كى موجودگى ميں اس كى اجازت كے بغير نفلى روزہ ركھنا جائز نہيں ہے ؛ كيونكہ خاوند كو اس كے ساتھ معاشرت اور استمتاع خوشطبعى كا حق ہے، اور اگر وہ روزہ ركھى گى تو اسے اس كے حق سے روك رہى ہے، لہذا اس كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں، اور اس كى اجازت كے بغير نفلى روزہ صحيح نہيں ہو گا.
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 4 / 73 - 74 ).
4 - خاوند كے حقوق پورے كرنا، اور گھر كا خيال ركھنا، اور اولاد كى تربيت كرنا بيوى كے اوپرواجبات ميں سے ہے، بعض اوقات خاوند بيوى كا نفلى روزہ ركھنے اور ان واجبات كے مابين تعارض ديكھتا ہے، اور عورتوں ميں اس بات كا مشاہدہ بھى كيا گيا ہے ـ بلكہ بعض مردوں ميں ـ كہ جب وہ روزہ ركھ لے تو سست ہو جاتى اور گھريلو واجبات ميں كوتاہى كرنے لگتى ہے، اسى ليے اسے نفلى روزہ ركھنے كے ليے اجازت لينے كا كہا گيا ہے، ليكن فرض روزے ميں نہيں.
5 - عام طور پر عادتا خاوند كام كاج اور كمائى كرنے كے ليے جاتا ہے ليكن عورت جس كا كام گھر ميں ہے، تو اس كے ليے ضرورت نہ ہونے كى بنا پر خاوند سے اجازت لينا مشروع نہيں كيا گيا، ليكن عورت اجازت لے گى.
بہر حال شريعت كے احكام اور منہيات سب كے سب حكمت پر مبنى ہيں، اور مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ يہى كہے كہ ہم نے سن ليا اور اطاعت كى، اصل ميں مرد اور عورتيں احكام ميں مشترك ہيں، ليكن جن ميں اللہ تعالى نے كسى حكمت كى بنا پر جس كا تعلق اس كى طبيعت اورخلقت كے ساتھ ہے اس ميں فرق كيا ہے، يا پھر اس ليے كہ مومن كو آزمائے كہ كون سچا مومن ہےاور كون نہيں.
واللہ اعلم .