"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں ايك مسلمان عورت ہوں اور نماز تراويح پابندى سے ادا كرتى ہوں عام طور پر جب ميں نماز كے ليے مسجد نہيں جاتى تو مجھ سے چھوٹا بھائى بھى مسجد نہيں جاتا، اور جب ہم مسجد ميں جائيں تو وتر امام كے ساتھ ہى ادا كرتے ہيں، ميرى عادت ہے كہ ميں رات كوتھجد اور قرآن كى تلاوت كے ليے اٹھتى ہوں ليكن وتر ادا كر لينے كے بعد نماز تھجد ادا نہيں كر سكتى لہذا ميرے ليے بہت كيا ہے؟
آيا ميں مسجد ميں نماز تراويح ادا كروں تا كہ ميں ميرا بھائى بھى نماز ادا كر لے، يا كہ گھر ميں رہوں تا كہ رات كو نماز تھجد ادا كرسكوں، دونوں ميں زيادہ ثواب كس ميں ہو گا ؟
الحمد للہ.
آپ كا مسجد ميں جانا اور جماعت كے ساتھ نماز تراوايح كى ادائيگى اور مسلمان بہنوں سے ملاقات كرنا، يہ سب خير و بھلائى اور ہدايت پر مبنى ہے، اور آپ كى اپنے بھائى كے ليے اس خير و بھلائى ميں معاونت ايك اور زيادہ اطاعت كا كام ہے.
اس اور رات كے وقت تھجد كى ادائيگى ميں كوئى تعارض نہيں، آپ ان مندرجہ ذيل دو چيزوں ميں سے ايك پر عمل كر كے يہ سب فضائل سميٹ سكتى ہيں:
اول:
آپ امام كے ساتھ وتر ادا كرليں، اور پھر اگر اس كے بعد آپ كے ليے تھجد كى ادائيگى ميسر ہو تو دو دو ركعت كر كے جتنى نماز تھجد اللہ تعالى نے آپ كے ليے لكھى ہے وہ ادا كريں، اور نماز وتر دوبارہ ادا نہ كريں، كيونكہ ايك رات ميں دو بار وتر ادا نہيں ہو سكتے.
دوم:
وتر آپ رات كے آخرى حصہ كے ليے مؤخر كرديں اور جب امام وتر كى نماز ميں سلام پھرے تو آپ اس كے ساتھ سلام نہ پھيريں، بلكہ كھڑے ہو كر ايك ركعت زيادہ ادا كرليں تا كہ رات كے آخرى حصہ ميں وتر ادا ہو سكے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
جب امام وتر پڑھاتا ہے تو بعض لوگ اس كے ساتھ سلام پھيرنے كى بجائے ايك ركعت اٹھ كر ادا كرتے ہيں تا كہ وتر رات كے آخر ميں ادا كر سكيں، تو اس فعل كا حكم كيا ہے ؟ اور كيا اسے امام كے ساتھ قيام كہا جائے گا؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
ہم تو اس ميں كوئى حرج نہيں جانتے، علماء كرام نے يہى بيان كيا ہے، اور اس ميں حرج بھى كوئى نہيں تا كہ رات كے آخر ميں وتر ادا ہو سكے، اور اس پر يہ صادق آ سكے كہ اس نے امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا گيا، كيونكہ اس نے تو امام كے ساتھ بلكہ اس نے تو شرعى مصلحت كى بنا پر ايك ركعت زيادہ ادا كى ہے تا كہ وہ رات كے آخر ميں وتر ادا كر سكے، تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور اس سے وہ امام كے ساتھ قيام كرنے سے خارج نہيں ہوتا، بلكہ اس نے امام كے جانے تك اس كے ساتھ قيام كيا ليكن وہ اس كے ساتھ نہيں گيا بلكہ وہ تو امام كے جانے كے بعد دير ميں گيا" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 312 ).
اور اسى طرح كا ايك سوال فضيلۃ الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ تعالى سے كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" مقتدى كے حق ميں افضل يہ ہے كہ وہ امام كى اقتدا كرے حتى كہ امام تراويح اور وتر سے فارغ ہو جائے، تا كہ اس پر يہ صادق آئے كہ اس نے امام كے فارغ ہونے امام كے ساتھ نماز ادا كى، تو اسے رات كے قيام كا ثواب حاصل ہو جيسا كہ امام احمد وغيرہ علماء نے كيا ہے.
اور اس بنا پر اگر وہ امام كے ساتھ وتر ادا كر كے فارغ ہوا تو اسے رات كے آخر ميں وتر ادا كرنے كى كوئى ضرورت نہيں، لہذا اگر وہ رات كے آخر ميں بيدار ہو تو جتنى اس كے مقدر ميں نماز لكھى ہے وہ دو دو ركعت كر كے ادا كرے، اور وتر نہ دھرائے، كيونكہ ايك رات ميں دو بار وتر نہيں ہوتے....
اور بعض علماء نے امام كے ساتھ وتر ميں ايك ركعت زيادہ ادا كرنے كو افضل كہا ہے، يعنى وہ امام كے سلام پھيرنے كے بعد ايك ركعت زيادہ ادا كرنے كے بعد سلام پھيرے، اور تھجد كے آخر ميں وتر ادا كرے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم ميں سے كسى كو صبح كے طلوع ہونے كا خدشہ ہو تو وہ ايك ركعت ادا كر كے اپنى نماز كو وتر كر لے"
اور اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم اپنى رات كى نماز ميں سب سے آخر ميں وتر ادا كرو" انتہى
ماخوذ از: فتاوى رمضان ( 826 ).
اور مستقل فتوى كميٹى نے فتوى ديا ہے كہ يہ دوسرا طريقہ بہتر اور احسن ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 207 ).
ہم اللہ تعالى سے آپ كے ليے توفيق اور صراط مستقيم كى دعا كرتے ہيں.
واللہ اعلم .