"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اس طرح كى پنچائتوں سے فيصلہ كروانے ميں كوئى حرج نہيں، جن كے متعلق لوگوں كو علم ہے اور وہ ان كے جھگڑے وغيرہ حل كرانے كے ليے قائم ہيں، ليكن اس كے ليے ايك شرط ہے كہ اس ميں فيصلہ كرنے والا شرعى علم ركھتا ہو، تا كہ لوگوں ميں اللہ تعالى كے نازل كردہ قانون كے مطابق فيصلہ كرسكے، نہ كہ اپنى عادات و خواہشات اور رواج كے مطابق، جن ميں اكثر اللہ تعالى كے حكم كے مخالف ہوتى ہيں.
چنانچہ اگر تو يہ پنچائت اللہ تعالى كے حكم كے مطابق فيصلہ كرے يہى مطلوب و مقصود ہے، اور اگر وہ اللہ تعالى كے حكم كے مخالف فيصلہ كريں تو پھر يہ فيصلہ معتبر نہيں ہوگا، اور وہ فيصلہ باطل ہے اسے تسليم نہ كرنا واجب ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
كيا وہ جاہليت كا فيصلہ چاہتے ہيں، اور اللہ تعالى سے بہتر فيصلہ كرنے والا كون ہو سكتا ہے، يقين ركھنے والى قوم كے ليے المآئدۃ ( 50 ).
دوم:
علماء كرام كا اس ميں اختلاف ہے كہ آيا تھپڑ، اور مكہ وغيرہ ميں قصاص واجب ہوتا ہے يا كہ تعزير ؟
جمہور علماء كہتے ہيں كہ اس ميں قصاص نہيں بلكہ تعزير واجب ہوتى ہے، ليكن صحابہ كرام اور محققين حضرات كا مسلك يہ ہے كہ اس ميں قصاص واجب ہوتا ہے.
امام بخارى رحمہ اللہ كتاب الديات ميں " جب كسى قوم نے كسى شخص كو مارا تو كيا ان سے قصاص ليا جائيگا يا كہ سب كو سزا دى جائيگى ؟ " كے باب كے تحت كہتے ہيں:
" اور ابو بكر، ابن زبير، اور على رضى اللہ تعالى عنہ اور سويد بن مقرن نے تھپڑ كا قصاص ليا، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے مار كا درے كے ساتھ قصاص ليا، اور على رضى اللہ تعالى عنہ نے تين كوڑے سے قصاص ليا، اور شريح نے كوڑے اور زخم كا قصاص ليا " انتہى.
اور يہى قول صحيح ہے، اور جس نے بھى اس كے خلاف اجماع نقل كيا ہے، اس كى بات غلط ہے، بلكہ اگر كوئى شخص صحابہ كرام كا اس حكم ميں اجماع نقل كرتا ہے تو يہ كوئى بعيد نہيں.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس مسئلہ ـ تھپڑ، اور مار وغيرہ جس ميں ہر اعتبار سے بالكل اسى طرح قصاص لينا مشكل ہو جو فاعل نے كيا ہے ـ اختلاف پايا جاتا ہے، كہ آيا اس ميں قصاص جائز ہے يا كہ اس ميں كسى اور قسم كى سزا يعنى تعزير لگائى جا سكتى ہے ؟
اسميں دو قول ہيں:
ان ميں زيادہ صحيح قول يہ ہے كہ: اس ميں قصاص مشروع ہے، خلفاء راشدين كا مسلك يہى ہے، اور اس كا ثبوت ان سے ملتا بھى ہے، امام احمد اور ابو اسحاق الجوزجانى نے اپنى كتاب " المترجم " ميں ان سے يہ بيان بھى كيا ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ نے بھى اسے بيان كيا ہے، ہمارے شيخ ( يعنى ابن تيميہ رحمہ اللہ ) كہتے ہيں: جمہورسلف كا قول يہى ہے.
اور دوسرا قول يہ ہے كہ: اس ميں قصاص مشروع نہيں، يہ قول امام شافعى، امام مالك، اور امام ابو حنيفہ رحمہم اللہ اور امام احمد كے متاخرين اصحاب سے منقول ہے، حتى كہ ان ميں سے بعض نے تو اس پر اجماع نقل كيا ہے كہ اس ميں قصاص نہيں! ايسا نہيں جيسا وہ گمان كرتے ہيں، بلكہ صحابہ كرام كا قصاص ميں اجماع اس كے منع كے اجماع سے زيادہ قريب ہے؛ كيونكہ يہ خلفاء راشدين سے ثابت ہے، اور ہمارے علم كے مطابق تو اس ميں ان كا كوئى مخالف نہيں.
ان اقوال كا ماخذ يہ ہے كہ: اللہ سبحانہ وتعالى نے اس ميں عدل و انصاف كا حكم ديا ہے، تو اس طرح يہ ديكھنا باقى رہا كہ دونوں ميں سے عدل و انصاف كے زيادہ قريب كيا ہے ؟
اس سے منع كرنے والے كہتے ہيں: يہاں مماثلت ممكن نہيں، تو عدل يا تقاضہ يہى ہے كہ قصاص كى بجائے كسى اور جنس كى طرف جايا جائے جو كہ تعزير ہے؛ كيونكہ قصاص ميں تو مماثلت ضرورى ہے، اس ليے زخموں ميں قصاص واجب نہيں، اور نہ ہى كاٹنے ميں، ليكن اگر مماثلت ممكن ہو تو پھر قصاص لينا ممكن ہے، اور جب قطع اور زخم ميں مماثلت مشكل ہو تو پھر ہم ديت اختيار كرينگے، اور اسى طرح تھپڑ وغيرہ ميں بھى جب قصاص لينا مشكل ہو تو پھر تعزير ہوگى.
اور قصاص كو جائز قرار دينے والے كہتے ہيں كہ:
اس ميں تعزير كى بجائے قصاص كتاب و سنت اور قياس اور عدل و انصاف كے زيادہ قريب ہے.
كتاب اللہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور برائى كى سزا اس كے برابر ہے .
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى تم پر زيادتى كرے تو تم بھى اس پر اتنى ہى زيادتى كرو جتنى اس نے تم پر كى تھى .
اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ اس ميں مماثلت اور برابرى حسب الامكان ہوتى ہے، اور تعزير سے زيادہ تھپڑ ميں ہى تھپڑ، اور مار سے مار ميں ہى بہت مماثلت پائى جاتى ہے؛ كيونكہ يہ ( يعنى تعزير ) كسى اور جگہ مار ہے اور نہ ہى اس ميں نہ تو صورتا مماثلت ہے، اور نہ ہى جگہ اور اندازے ميں، تو تم تفاوت سے بھاگے ہو جس دونوں تھپڑوں ميں احتراز ناممكن تھا، ليكن اس سے بھى بڑے تفاوت ميں پڑ گئے، جس كى نا تو كوئى نص ہے اور نہ ہى قياس.
ان كا كہنا ہے: اور رہى سنت تو ابن قيم رحمہ اللہ نے كئى ايك احاديث بيان كى ہيں جن ميں اس طرح كے معاملہ ميں قصاص ثابت ہے پھر وہ كہتے ہيں:
اور اگر اس مسئلہ ميں صرف خلفاء راشدين كى سنت ہى ہوتى تو پھر بھى يہ دليل اور حجت كے ليے كافى تھى.
ديكھيں: حاشيۃ ابن القيم على تھذيب سنن ابى داود ( 7 / 336 - 337 )، اور الفتاوى الكبرى ( 3 / 402 ).
سوم:
اور جب آپ كے ليے يہ ثابت ہو گيا كہ دوسرے فريق نے آپ كو مارا ہے اس ميں آپ قصاص لے سكتے ہيں، تو پھر اگر آپ ديكھيں كہ اس نے ندامت كا اظہار كرتے ہوئے آپ سے معذرت كى اور معافى مانگ لى اور اپنى حالت سدھار لى ہے تو آپ بغير كچھ ليے معاف كر سكتے ہيں.
اور آپ كے ليے قصاص لينا بھى جائز ہے، كہ آپ بھى اس كے ساتھ اسى طرح كريں جس طرح اس نے آپ كے ساتھ كيا ہے، ليكن اس ميں زيادتى نہ ہو اور نہ ہى ظلم.
اور آپ كے ليے مالى عوض كے بدلے قصاص ترك كرنا بھى جائز ہے، اس كا فيصلہ شرعى قاضى كريگا، اور جب آپ اس سے اسى طرح كا عمل كر كے قصاص ليں جو اس نے آپ كے ساتھ كيا ہے تو پھر آپ كے ليے اہانت كے بدلے مال لينا جائز نہيں؛ كيونكہ آپ نے مماثلت كا حق لے ليا ہے، جس طرح كہ جس عوض كا آپ كے حق ميں فيصلہ كيا گيا ہے وہ مار كے عوض ميں ہے نہ كہ اہانت كے عوض ميں؛ كيونكہ اہانت تو ايك معنوى ضرر ہے، اس طرح كے معنوى ضرر كے مقابلہ ميں مالى عوض لينا جائز نہيں، عموم علماء اس مسلك پر ہى ہيں.
اسلامى فقہ اكيڈمى كے فيصلہ نمبر ( 109 ) ( 3 / 12 ) ميں جزائى شرط كے عنوان كے تحت درج ہے:
" جس نقصان اور ضرر كا معاوضہ جائز ہے، وہ مالى فعل پر مشتمل ہے ... اور ضرر ادبى يا معنوى كو شامل نہيں " انتہى.
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں " معنوى اضرار كے معاوضہ " كے تحت درج ہے:
" ہم فقھاء ميں سے كسى فقيہ كو بھى نہيں ديكھتے كہ اس نے يہ تعبير كى ہو، بلكہ يہ ايك نئى تعبير ہے، ہم كسى بھى فقہى كتاب ميں نہيں پاتے كہ كسى ايك فقيہ نے بھى معنوى اضرار ميں مالى معاوضہ كے متعلق بات كى ہو " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 13 / 40 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
آپ كو قصاص لينے، يا پھر بغير كچھ ليے معاف كرنے كا حق حاصل ہے، اور افضل بھى يہى ہے كہ اگر اس ميں كوئى اصلاح، يا ندامت نظر آئے تو معاف كرنا افضل ہے، يا پھر مار كے عوض ميں آپ مال لے ليں.
اور جب آپ قصاص كے ساتھ اپنا حق پور كر ليں تو اس كے بعد آپ كو مال لينے كا كوئى حق حاصل نہيں، ليكن اگر آپ اپنے حق كے عوض ميں صرف مال لينا چاہيں، جيسا كہ آپ كے سوال سے ظاہر ہوتا ہے، تو پھر اس مال سے آپ خود بھى فائدہ حاصل كرسكتے ہيں، اور اسے صدقہ بھى كر سكتے ہيں.
واللہ اعلم .