"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اللہ تعالى كى قدرت كہ مجھے پھيپھڑوں كى بيمارى ہے، جس كا علاج ابتدائى طور پر يہ ہے كہ ايك برس تك روزانہ ٹيكہ اور دوسرى دوائى روزانہ تين بار كھانى پڑتى ہے، اور رمضان كا مہينہ بھى شروع ہو گيا ہے، اس كے باوجود ميں نے روزے بھى ركھنے شروع كر ديے اور پندرہ روزے ركھنے كے بعد عادت كے مطابق ٹيكہ لگوانے كے ليے كلينك كا رخ كيا تو وہاں مجھ سوال كيا گيا كہ روزے سے ہو ؟ تو ميں نے اثبات ميں جواب ديا، تو مجھے كہا گيا كہ آج سے روزہ نہ ركھو، اس كے بعد ميں نے باقى ايام كے روزے نہيں ركھے، اور ان ايام كى قضاء ميں روزے بعد ميں ركھ ليے، اور بعد ميں مجھے علم ہوا كہ انجيكشن سے روزہ نہيں ٹوٹتا، تو ميں ميں نادم ہوا كہ ميں نے بيمارى كے باوجود پورے مہينے كے روزے مكمل نہيں كيے، اور اس معالج كو كوسنے لگا جس نے مجھے روزہ نہ ركھنے كا كہا تھا، آپ سے گزارش ہے كہ مجھے اس كے متعلق شريعت اسلاميہ كا موقف بتائيں، كيا شرعى موقف كيا ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
مريض كو ديے جانے والے انجيكشن دو قسم كے ہوتے ہيں:
پہلى قسم:
غذائى انجيكشن، اگر يہ انجيكشن جان بوجھ كر استعمال كيا جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے.
دوسرى قسم:
جو غذائى نہ ہو، علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق اس انجيكشن كا روزے پر كوئى اثر نہيں ہوتا، چاہے عضلات ميں لگايا جائے يا وين ميں، كيونكہ نہ تو يہ كھانا ہے اور نہ ہى پينا، اور نہ ہى كھانے پينے كے معنى ميں آتا ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 65632 ) اور ( 49706 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں، كيونكہ ان ميں اس مسئلہ كے متعلق مختلف علماء كے فتوى جات نقل كيے گئے ہيں.
ہو سكتا ہے اس معالج نے كسى ايك عالم دين كا قول ليا ہو جو يہ رائے ركھتا ہے كہ اگر انجيكشن پيٹ ميں چلا جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے.
بہر حال آپ نے اس كے كہتے پر روزے نہيں ركھے، اور پھر ان روزوں كى قضاء كرتے ہوئے بعد ميں روزے ركھ بھى ليے ہيں، تو آپ نے اپنے ذمہ واجب كو ادا كر ديا ہے، اس كے علاوہ آپ پر كچھ لازم نہيں آتا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك عورت نے اپنے بالوں كوتيل لگايا اور پھر اس كى بہن نے اسے بتايا كہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، تو اس نے روزہ كھول ديا اور بعد ميں اس روزے كى قضاء بھى كر لى اسكے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس سوال كے جواب ميں دو باتيں ہيں:
پہلى:
اس عورت نے بغير كسى علم كے فتوى جارى ديا ہے، اس ليے كہ عورت روزے كى حالت ميں اپنے بالوں كوتيل لگانے سے روزہ نہيں ٹوٹتا...
دوسرى:
جس عورت كو بغير علم كے فتوى ديا گيا، اور اس نے روزہ كھول ديا اور بعد ميں اس فتوى كى بنا پر روزہ كى قضاء بھى كر لى تو اس عورت پر كچھ گناہ نہيں؛ كيونكہ اس نے اپنے ذمہ واجب كى ادائيگى كر دى ہے " انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 226 ).
دوم:
آپ نے سوال ميں يہ كہا ہے كہ:
" اللہ كى قدرت نے چاہا "
يہ بہت ہى واضح غلطى ہے، كيونكہ اقدار كى كوئى مشيئت نہيں بلكہ صحيح يہ ہے كہ آپ كہتے اللہ نے چاہا، يا اللہ نے مقدر ميں كرديا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اس قول كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں: حالات نے چاہا كہ ايسا ايسا ہو گيا "
اور " اقدار نے ايسا ايسا چاہا "
كيا يہ قول صحيح ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
قول: " اقدار نے چاہا " اور " حالات نے چاہا " يہ منكر الفاظ ہيں صحيح نہيں، كيونكہ ظروف ظرف كى جمع ہے، اور يہ وقت كو كہتے ہيں، اور وقت كى كوئى مشيئت نہيں ہوتى، اور اسى طرح اقدار قدر كى جمع ہے، اور قدر كو بھى كوئى مشئيت حاصل نہيں، بلكہ جو چاہتا ہے وہ تو اللہ تعالى ہے، جى ہاں اگر انسان يہ كہے كہ: اللہ كى قدرت نے ايسا چاہا " تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن مشيئت كى اضافت اقدار كى طرف كرنى جائز نہيں، كيونكہ مشيئت تو ارادہ ہے، اور وصف كا كوئى ارادہ نہيں، بلكہ ارادہ تو موصوف كا ہوتا ہے " انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 3 / 113 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو شفايابى سے نوازے اور آپ كا علم اور فقاہت زيادہ فرمائے.
واللہ اعلم .