اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

طلبا نہ ہونے كى بنا پر مدرسين كا ڈيوٹى وقت ختم ہونے سے قبل چلے جانے كا حكم

19-06-2007

سوال 85055

ميں معلمہ ہوں اور چھٹيوں سے واپسى كے ايام ميں ہمارے پاس كوئى كام نہيں ہوتا، تو ان ايام ميں ہم ڈيوٹى سے تقريبا تين گھنٹے قبل جانا چاہتى ہيں، يہ علم ميں رہے كہ محكمہ نے ہميں اس كى اجازت بھى دے ركھى ہے، اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر كوئى كام نہ ہو اور محكمہ نے معلمات كو جانے كى اجازت بھى دے ركھى ہو تو وقت سے قبل جانے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ محكمہ كو كام كى مصلحت كا زيادہ علم اور اس كى زيادہ نظر ہوتى ہے، اور ملازمين پر كاموں كى تقسيم كا علم ہوتا ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص ملازم ہے اور اس كے پاس جو كام ہوتا ہے وہ ختم كرنے كے بعد ڈيوٹى ختم ہونے سے قبل اس كے ليےگھر جانے كا حكم كيا ہے، خاص كر رمضان المبارك ميں، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جائز نہيں، اس كے ليے ڈيوٹى ختم ہونے تك دفتر ميں رہنا واجب اور ضرورى ہے، مگر وہ اس محكمہ كى اجازت سے جا سكتا ہے جہاں كام كرتا ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے كوئى نيا كام آ جائے، اور اس كى ضرورت پڑ جائے، اس ليے ملازم پر واجب ہے كہ وہ ڈيوٹى كا وقت ختم ہونے تك دفتر ميں موجود رہے، ليكن حكومت يا پھر اس ادارہ كى اجازت سے جا سكتا ہے جو اس كا ذمہ دار ہے " انتہى

ماخوذ از: نور على الدرب.

واللہ اعلم .

ملازمت کے احکام
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔