"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
" اللہ سبحانہ و تعالى نے والدين اور رشتہ داروں كا حق واجب كيا ہے، اور ان سے قطع رحمى كرنے سے منع فرمايا ہے والدين سے قطع رحمى نافرمانى اور شرك كے بعد اسے كبيرہ گناہ ميں شمار كيا گيا ہے، اسى طرح قطع رحمى كرنا كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتى ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم سے يہ بھى بعيد نہيں كہ اگر تمہيں حكومت مل جائے تو تم زمين ميں فساد بپا كرنے لگو، اور رشتے ناطے توڑ ڈالو، يہى وہ لوگ ہيں جن پر اللہ كى لعنت ہے، اور جن كى سماعت اور آنكھوں كى روشنى چھين لى گئى محمد ( 22 - 23 ).
خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كو ناحق والدين اور رشتہ داروں سے قطع رحمى كرنے پر ابھارے، كيونكہ اس طرح تو وہ بيوى كو معصيت و نافرمانى كرنے كى ترغيب دلا رہا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے قطع رحمى كرنے كا حكم دے رہا ہے جو كہ ايك گناہ كا كام ہے، اور پھر اس ميں اور بھى بہت سارى خرابياں پائى جاتى ہيں، كيونكہ خاوند يا ہر ايك كى اطاعت تو نيكى كے كام ميں ہوگى.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اطاعت و فرمانبردارى تو نيكى كے كاموں ميں ہے "
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" اللہ خالق كى نافرمانى ميں كسى مخلوق كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں كى جا سكتى "
اس ليے خاوند كو حق نہيں كہ وہ بيوى كو اپنے والدين اور رشتہ داروں سے شرعى حدود اور مصلحت كے اندر رہتے ہوئے ملنے اور صلہ رحمى كرنے سے روكے، بلكہ خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كو اپنے والدين اور رشتہ داروں سے صلہ رحمى كرنے ميں تعاون مہيا كرے، اور اسے صلہ رحمى كرنے كى ترغيب دلائے.
كيونكہ صلہ رحمى كرنے ميں دونوں كے ليے بھلائى اور خير پائى جاتى ہے، اور جس حديث كى طرف سائل نے سوال ميں اشارہ كيا ہے، ہم نے تو آج تك يہ حديث نہيں سنى، اور نہ ہى كتابوں ميں ديكھى ہے، اور مجھے اس حديث كى حالت كے بارہ ميں بھى علم نہيں " انتہى
واللہ اعلم.