"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
يہ تو معروف ہے كہ ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بدعت ہے، ليكن بہت سارے لوگ ميلاد مناتے ہيں ليكن اس غرض سے نہيں كہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعريف اور آپ كى زندگى وغيرہ كے متعلق، اگر يہ چيز ولادت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے دن نہ كى جائے تو كيا پھر بھى حرام ہے ؟
اور كيا فى ذاتہ ميلاد كا كلمہ ہى اس واقع كے حرام قرار ديا ہے، مثال كے طور پر اگر ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعريف وغيرہ الخ بغير ميلاد كا كلمہ استعمال كيے كروں تو كيا پھر بھى حرام ہو گا، اور اس ميں لوگوں كو كھانا بھى كھلايا جائے، ميں يہ سوال اس ليے كر رہا ہوں كہ آئندہ ہفتہ وار چھٹى پر شادى كے موقع پر رات كا كھانا ہے، اور اس ليے كہ لوگ جمع ہونگے ضيافت كرنے والوں نے يہ فيصلہ كيا ہے كہ كھانے كے بعد مسجد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تعريف كى مناسبت سے تقارير ہوں، اور انہوں نے اسے ميلاد كا نام ديا ہے، ليكن يہ دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت كا دن نہيں ہے، اور نہ ہى جشن ميلاد النبى منايا جائيگا، ليكن صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت پر تقرير ہو گى، اور يہ انہوں نے رقص وغيرہ كے بدلے كيا تا كہ لوگ اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى سے زيادہ استفادہ كر سكيں، برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں.
دوم: جب مسجد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت اور تعريف پر اجتماع كيا جائے اور حاضرين كو كھانا ديا جائے تو كيا يہ اجتماع حرام ہو گا ؟
الحمد للہ.
كسى بھى شخص كے ليے جشن ميلاد منانا مشروع نہيں، نہ تو انبياء كا اور نہ ہى كسى اور شخص كا؛ كيونكہ اس كا شرع ميں وجود نہيں ملتا، بلكہ يہ غير مسلمين يہود و نصارى سے ليا گيا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 10070 ) اور ( 13810 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
جشن ميلاد يا سالگرہ كا جشن منانے كا مقصد يہ ہے كہ: كسى شخص كى ولادت كے دن اس كى سالگرہ كا جشن يعنى ميلاد منايا جائے، مثلا بارہ ربيع الاول جسے بعض لوگ خيال كرتے ہيں كہ يہ دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كا دن ہے، اس دن جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا.
ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت اور تعريف اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے محاسن كے متعلق تقارير اور بات چيت كرنا يہ ہر وقت مستحب اور مشروع ہے، اور بات چيت كو ميلاد كا نام نہيں ديا جاتا، جس طرح شادى كے فنگشن كو ميلاد نہيں كہا جاتا.
ليكن بعض مسلمان علاقوں اور ملكوں ميں يہ مشہور ہے كہ ہر وہ اجتماع اور جشن جو مشروع طريقہ پر كيا جائے جس ميں نہ تو رقص اور موسيقى ہو اور نہ ہى مرد و عورت كا اختلاط تو وہ اسے ميلاد سے موسوم كرتے ہيں، اور وہ كہتے ہيں:
ہم شادى كے روز يا بچے كے ختنے والے دن ميلاد منائينگے، تو لوگ كو وعظ كرنے كے ليے شخص آتا ہے، اور قرآن كى تلاوت كرنے كے ليے بلايا جاتا ہے، تو اس تسميہ يعنى اس كو ميلاد كا نام دينے كى كوئى دليل اور اصل نہيں ملتى، اور نہ ہى يہ حكم پر اثر انداز ہوتا ہے.
چنانچہ شادى كا جشن مانے ميں لوگوں پر كوئى حرج نہيں اور اس اجتماع ميں بات چيت ہو سكتى ہے اور لوگوں كو خير و بھلائى كا وعظ و نصيحت كيا جا سكتا ہے، يا پھر كوئى شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت اور آپ كے اوصاف و شمائل بيان كرے تو يہ مشروع ہے، اور يہ بدعتى جشن ميلاد ميں شامل نہيں ہوتا.
اور بغير كسى دن كو مخصوص كيے اور اس كى فضيلت كا اعتقاد ركھے بغير مسجد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت بيان كرنے كے ليے اجتماع كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا ولادت كا دن، يا پندرہ شعبان، يا معراج اور اسراء كے دن ايسا نہيں كيا جائے كيونكہ يہ بدعت ہے، بلكہ اس طرح كے ايام كے علاوہ باقى سارے ايام ميں كيا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور حاضرين كو كھانا كھلانے ميں بھى كوئى حرج نہيں ہو گا، اور چاہيے كہ يہ حكم پھيلايا جائے كہ اسے ميلاد سے موسوم نہ كريں، اور نہ ہى يہ جشن ميلاد كا حكم ركھتا ہے، تا كہ يہ گمان ہى نہ كيا جائے كہ يہ ميلاد كا جشن مشروع ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو سنت نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرنے، اور لوگوں ميں اس كو پھيلانے كى توفيق دے.
واللہ اعلم .