"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
محلے والوں نے کچھ رقم مسجد کی تعمیر کے لیے دی ہے، ہم ابھی تک مسجد کی تعمیر کچھ وجوہات کی بنا پر نہیں کر سکے، اس پر مکمل سال بھی گزر چکا ہے، تو کیا اس مال میں سے زکاۃ ادا کرنا لازم ہے؟
الحمد للہ.
مساجد اور فقرا جیسے عوامی فائدے کی چیزوں کے لیے وقف کردہ مال پر زکاۃ نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا کوئی معین مالک نہیں ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (5/311) میں کہتے ہیں:
"اگر جانور کسی رفاہی ادارے کے لیے وقف ہوں، جیسے کہ مساجد ، یا فقرا، یا مجاہدین یا یتیم وغیرہ کے لیے تو ان جانوروں میں کوئی زکاۃ نہیں ہے؛ کیونکہ ان کا کوئی معین مالک نہیں ہے۔" ختم شد
اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
" رفاہ عامہ کے لیے وقف شدہ باغ ، زمین کا پھل اور فصل ، جیسے کہ کوئی مال مسجد، پل، مدرسہ، فقرا، مجاہدین، مسافروں، یتیموں، اور بیواؤں وغیرہ کے لیے وقف ہو، تو اس میں زکاۃ نہیں ہے ۔۔۔ اور اگر کوئی چیز کسی مخصوص انسان، یا جماعت ، یا کسی فرد کی اولاد کے لیے وقف ہو تو پھر اس صورت میں بلا اختلاف زکاۃ واجب ہو گی؛ کیونکہ یہ لوگ باغ کے پھل کے پورے مالک ہیں اور اس زمین سے حاصل ہونے والی فصل کے بھی پورے مالک ہیں۔ وہ ان میں ہر قسم کے تصرف کا اختیار رکھتے ہیں۔" ختم شد
"المجموع" (5/483)
ایسے ہی "الفروع" (2/336) میں ہے کہ:
"اگر کوئی وقف شدہ چیز غیر معین شخص پر وقف ہے یا مساجد ، یا مدارس یا معسکر وغیرہ کے لیے وقف ہے تو اس مال میں زکاۃ نہیں ۔" ختم شد
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
میرے پاس کچھ لوگوں کی دی ہوئی مسجد کی تعمیر کے لیے رقم موجود ہے، اور اس پر سال بھی گزر چکا ہے، تو کیا اس پر زکاۃ ہو گی یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس پر کسی صورت میں بھی زکاۃ نہیں ہے، کیونکہ اس مال کو اس کے مالکوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا ہے، اب اسے چاہیے کہ اسے فوری طور پر متعلقہ جگہ پر صرف کر دے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (14/37)
اس لیے مسجد کے لیے جمع کیے گئے مال میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔