"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
ہر مسلمان بالغ شخص جو آذان سنے اسے نماز باجماعت مسجد ميں جا كر ادا كرنا فرض ہے.
اذان سننے كا مقصد يہ ہے كہ انسان عام آواز سے اور بغير كسى لاؤڈ اسپيكر كے مؤذن كى بلند آواز كے ساتھ دى گئى اذان سنے، اور فضاء ميں بالكل سكون ہو شور وغيرہ نہ ہو جو سماعت پر اثرانداز ہو سكے.
يہ تو نماز پنچگانہ باجماعت ادا كرنے كے متعلق ہے، ليكن جمعہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو شہر يا بستى ميں رہتا ہو جہاں جمعہ ادا كيا جاتا ہو، چاہے وہ اذان سنے يا نہ سنے، اور چاہے شہر كتنا بھى بڑا ہو.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 89676 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر اگر آپ كے گھر سے مسجد اتنى دور ہے كہ آپ آذان نہيں سنتے تو آپ پر مسجد ميں جانا واجب نہيں اس صورت ميں آپ اپنے گھر والوں كے ساتھ مل كر جماعت كروا سكتے ہيں.
ليكن اگر آپ اذان سنتے ہيں تو پھر آپ كو مسجد ميں جا كر نماز باجماعت ادا كرنا ہوگى، اور افراد خانہ نماز ادا كرتے ہيں يا نہيں اسے ديكھنے كے ليے آپ كا مسجد ميں جا كر نماز باجماعت ادا نہ كرنا جائز نہيں ہوگا.
كيونكہ ايسا كرنے ميں كسى دوسرے كى بنا پر واجب و فرض ترك كيا جا رہا ہے، جس كى تحقيق كسى دوسرے طريقہ سے بھى ہو سكتى ہے كہ مسجد ميں نماز باجماعت ادا كر كے گھر آ كر انہيں نماز كى ادائيگى كا پوچھ ليا جائے.
سوم:
جب بچہ بالغ ہو جائے تو وہ مكلف اور ذمہ دار بن جاتا ہے اس سے شرعى احكامات كے بارہ ميں باز پرس كى جائيگى، ليكن اس سے والدين كا اپنے بچے كو وعظ و نصيحت كرنے كا واجب ساقط نہيں ہو جائيگا.
جب بچہ والدين كے ساتھ رہتا ہے تو بچے كو احسن طريقہ سے نيكى كا حكم ديا جائے اور اسے برائى سے منع كيا جائے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے افراد خانہ كو جہنم كى اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، جس پر ايسے شديد اور سخت فرشتے مقرر ہيں جو اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے، اور وہ وہى كچھ كرتے ہيں جو انہيں حكم ديا جاتا ہے التحريم ( 6 ).
اور حديث ميں بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ سے ثابت ہے كہ والدين ذمہ دار ہيں:
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" تم سب ذمہ دار ہو، اور تم سب سے تمہارى ذمہ دارى اور رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا تم اس كے جوابدہ ہو، حكمران اپنى رعايا كا ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا وہ اس كا جوابدہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے اس سے اس كى رعايا اور ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 853 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى جس بندے كو بھى اپنى رعايا كا حكمران بناتا ہے اور وہ اس حالت ميں مرے كہ اس نے اپنى رعايا كے ساتھ دھوكہ كيا ہو تو اللہ تعالى اس پر جنت كو حرام كر ديتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6731 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 142 ).
اس ذمہ دارى اور مسؤليت ميں يہ بھى شامل ہے كہ:
والد اپنے گھر ميں كوئى برائى والى چيز داخل مت كرے اور اگر بچہ گھر ميں لے آئے تو وہ اسے گھر ميں ركھنے كى اجازت مت دے، مثلا اگر كوئى بچہ فحش اور بےحيائى والى چينل گھر ميں لگوانا چاہے تو والد پر واجب ہے كہ وہ ايسا نہ كرنے دے.
كيونكہ يہ كام اس كے گھر ميں ہو گا جس كا ذمہ دار والد ہے، اور اس نے كل قيامت كے دن اس كا جواب دينا ہے اور اگر بچہ اپنے والدين سے عليحدہ اپنے گھر ميں منتقل ہو جاتا ہے تو وہ جو چاہے كرتا پھرے اور اس حالت ميں والد اچھے طريقہ سے وعظ و نصيحت كرے.
اللہ تعالى سے ہم دعا گو ہيں كہ وہ آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .