"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔
پہلی بات:
حج اسلام کے عملی ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور اللہ تعالی نے صاحبِ استطاعت پر زندگی میں صرف ایک بار فرض کیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ) آل عمران/ 97
ترجمہ: اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔
اور علماء کے صحیح قول کے مطابق حج فوری طور پر واجب ہے، اور یہی جمہور علماء کا موقف ہے، ابو حنیفہ ، مالک سے مشہور یہی ہے، احمد سے منقول دو روایات میں سے قوی یہی ہے، احناف میں سے ابو یوسف بھی اسی کے قائل ہیں، شوافع میں سے مزنی، اور داود ظاہری بھی اسی کے قائل ہیں، معاصر علماء میں سے خاصی تعداد اسی کی قائل ہے، جیسے کہ سوال نمبر ( 41702 ) میں اس کا تذکرہ گزر چکا ہے۔
دوسری بات:
حج صرف صاحبِ استطاعت پر واجب ہے، اور صاحبِ استطاعت اسے کہتے ہیں کہ جو بدنی طور پر صحت مند اور گھریلو مصاریف ودیگر بنیادی خرچے کا مالک ہو کہ جسکی بنا پر سفرِ حج پر جاسکے اور واپس بھی لوٹ سکے۔
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر ( 5261 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اور کبھی ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ بدنی طور پر صحت مند شخص اس دور میں حج کیلئے مکہ مکرمہ نہ جا سکے، کیونکہ ہر ملک سے طے شدہ تعداد میں ہی لوگ حج کیلئے جاسکتے ہیں، اس کیلئے بعض ممالک نے تاریخ پیدائش کو معیار بنایا ہے جو پہلے پیدا ہوا اسکا حق پہلے ہے، جبکہ کچھ ممالک نے قرعہ اندازی کا طریقہ اپنایا، اس لئے یہ معاملہ بھی اب شرعی استطاعت میں شامل ہے، چنانچہ جسکی عمر ملکی نظام کے مطابق حج کی صلاحیت نہ رکھے ، یا قرعہ اندازی میں نام نہ آئے تو ایسے شخص کو صاحبِ استطاعت نہیں سمجھا جائے گا، ہاں اگر اسکے پاس کوئی ایسا جائز ذریعہ ہے جس سے کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو اور یہ حج بھی کرلے تو اس وقت اُسے صاحبِ استطاعت کہا جائے گا۔
تیسری بات:
مندرجہ بالا بیان کے بعد: اگر سائل کے پاس سیاحتی حج پیکیج کیلئے مادی طاقت نہیں ہے تو اسے صاحبِ استطاعت نہیں سمجھا جائے گا، اور اگر اسکے پاس سیاحتی حج پیکیج کیلئے رقم ہے اور اسکا اہل و عیال کے نان و نفقہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو اس صورتِ حال میں ظاہر یہی ہے کہ آپ صاحبِ استطاعت ہیں، اور آپ کو حج کا جو بھی پیکیج میسر ہو اسے اختیار کریں اور حج کی ادائیگی کریں۔
ویسے بھی قرعہ اندازی والے حج کا انتظار کرنے کی بجائے اِسی کو اختیار کرنا مناسب بھی ہے جسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
1- سائل اس وقت بدنی طور پر طاقت رکھتا ہے، لیکن جب آئندہ اسکا قرعہ اندازی میں نام آئے تو ہوسکتا ہے کہ اسکے پاس بدنی طاقت نہ ہو۔
2- مستقبل میں کچھ رکاوٹیں بھی کھڑی ہوسکتی ہیں جو اسے حج کرنے سے روک دیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ قرعہ اندازی میں نام کا آنا یقینی نہیں ہے، اور قرعہ اندازی میں کسی کی باری کا انتظار بھی نہیں کیا جاتا ہے ، کہ جنہوں نے پہلے حصہ لیا ہے انہیں زیادہ اہمیت دی جائے ، بلکہ قرعہ اندازی میں انسان کو کافی لمبا عرصہ بھی انتظار کرنا پڑ جاتا ہے لیکن پھر بھی باری نہیں آتی ۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جلد از جلد حج کی ادائیگی کیلئے رغبت دلائی ہے، اور بتلایا ہے کہ بسا اوقات صاحبِ استطاعت کو مستقبل میں کچھ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جو اسے حج کرنے سے روک دیتی ہیں۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا:
"جو شخص حج کرنا چاہتا ہے ، اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے"
ابو داود: ( 1732 ) البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود "میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیلئے جلدی کرنے کی حکمت بھی بیان کی اور فرمایا: (جو شخص حج کرنا چاہتا ہے ، اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے، اس لئے وہ بعد میں بیمار ہوسکتا ہے، یا سواری کا انتظام نہ ہوسکے، یا اسی کوئی بھی ضرورت پیش آسکتی ہے)
ابن ماجہ: ( 2883 ) البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابن ماجہ"میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
3- یہ بھی ممکن ہے کہ قرعہ اندازی کے حج کا خرچہ آنے والے وقت میں موجودہ سیاحتی حج پیکیج تک پہنچ جائے، اور غور کرنے پر یہ بات ساری دنیا میں حقیقت میں موجود ہے، کہ ہر سال حج کا خرچہ بڑھ رہا ہے۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر: سائل کے متعلق ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سیاحتی حج پیکیج لے کر حج کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ روانہ ہوجائے، بشرطیکہ اس کے پا س پورے سفر کے اخراجات اور اہل و عیال کیلئے مکمل نان و نفقہ کا بندو بست ہو، اس صورت میں وہ صاحبِ استطاعت ہے اور اسے حج کرنا ہوگا۔
واللہ اعلم .